السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مشرک و کبائر کے مرتکب شخص کو قرآنی خوانی …وغیرہ اعمال نفع دیں گے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مذکورہ صفات کے حامل شخص کو چاہیے کہ اپنی اوّلین فرصت میں امدادی ذرائع سے دعوۃ الرسل توحید خالص کو سمجھنے کی سعی کرے یا پھر کسی موحد بزرگ عالم کی صحبت کو اختیار کرے تاکہ اس کی باطنی کیفیت میں جلاء پیدا ہو کر اس میں جذبہ توحید موجزن ہو جو اوّل و آخر ذریعہ نجات ہے۔ ورنہ آپ جانتے ہیں کہ نکما بیج تو زمین بھی قبول نہیں کرتی۔ چہ جائیکہ سیاہ کاریوں اور بداعمالیوں کا سودا اللہ کے حضور پروان چڑھے۔ یہ حقیقت ہے کہ اللہ جل شانہ کابندوں پر بہت زیادہ حق ہے۔ اس کا تقاضاہے کہ بندہ کما حقہ حق عبودیت ادا کرے۔ اس کے ما سوا کسی کی پرستش نہ کرے اور نہ کسی کو نفع و ضرر اور خوف و رجاء وغیرہ میں اس کا شریک وسہیم سمجھے۔ خالی گھر ہر ایک کی توجہ کا مرکز ہوتا ہے۔ ہر کوئی اس کو اپنے مقاصد میں استعمال کے لیے کوشاں ہوتا ہے۔ اسی طرح یادِ الٰہی سے غافل اور بے بہرہ دل و دماغ بڑی آسانی سے شیطانی قوتوں کا ملجأ و ماوٰی بن جاتا ہے۔ اس کے نتیجہ میں گناہ آلود زندگی خوبصورت و مزین لگنے لگتی ہے۔ آدمی ہوائی گھوڑے پر سوار ہو کر خوش فہمی میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ اللہ کی رحمت بڑی وسیع ہے۔ عمل کی کیا ضرورت ہے۔ وہ خود بخود معاملہ حسنہ کرے گا۔ میرے اعمال سے وہ مستغنی ہے، وغیرہ وغیرہ سوچنے کا مقام ہے۔ اگر یہ بات حقیقت کا رُوپ دھارے ہوتی تو انبیاء کرام اور اولیائے عظام کو عبادات کی مصائب و مشکلات کا بوجھ اٹھانے کی کیا ضرورت تھی۔ جب کہ تاریخ شاہد ہے کہ مجاہدہ نفس میں وہ اپنی نظیر آپ تھے۔ اس بناء پر وہ خلد بریں کے وارث ٹھہرے۔
سوال میں ذکر کردہ بہت ساری چیزیں شرکیات اور بدعات اور کبائر کی قبیل سے ہیں۔ دین اسلام سے غیر متعلق ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے دین کا صحیح فہم و ادراک حاصل کیا جائے۔ پھر اس کے تقاضوں کے مطابق اپنے کو ڈھالا جائے:
’ الْکَیِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَهُ، وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ، وَالْعَاجِزُ، مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَهُ هَوَاهَا، ثُمَّ تَمَنَّی عَلَی اللَّهِ‘ (سنن ابن ماجه،بَابُ ذِکْرِ الْمَوْتِ وَالِاسْتِعْدَادِ لَهُ،رقم:۴۲۶۰، سنن الترمذی،رقم:۲۴۵۹)
یعنی عقلمند اور دانا بینا وہ ہے جس نے اپنے نفس کو رب کی رضا کے تابع کردیا اور عاجز و بے بس وہ ہے جو نفسانی خواہش کی پیروی میں لگا رہا اور اللہ سے صرف ظنون کا متمنی ہے۔‘‘
شخص ہذا منہیات کا مرتکب اگر مر گیا تو قرآن خوانی، ساتواں ، چالیسواں وغیرہ اس کے لیے نفع بخش نہیں، کیونکہ بذاتِ خود ان اعمال کا بوجھ ہی شریعت اسلامیہ میںثابت نہیں۔ دوسری طرف یہ شخص مشرک بھی ہے جس کی نجات ممکن نہیں۔﴿اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ ﴾(النساء:۴۸)
مزید آنکہ یہ شخص کبائر کا مرتکب ہے جس کی نجات کا انحصار مشیت الٰہی پر موقوف ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب