السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
زید نے اپنی رفیقۂ حیات سے عزل کے بارے میں بات کی۔ اس نے زید سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ یہ مانع حمل اور ممنوع فعل ہے۔ زید کہنے لگا یہ جائز ہے کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا فرمان ہے کہ نزولِ قرآن کے دَور میں ہم عزل کیا کرتے تھے۔ زید کا خیال تھا کہ اگر یہ فعل ناجائز ہوتا تو آسمان سے اس کے متعلق کوئی نہ کوئی حکم ضرور نازل ہوتا ۔ یہ سن کر اس کی اہلیہ کہنے لگی کہ نبی پاکﷺ کا اِرشاد گرامی ہے کہ عزل خفیہ طور پر قتل ِ اولاد ہے۔ ممکن ہے صحابہ رضی اللہ عنہم کا فرمان آنحضرت ﷺکی طرف سے ممانعت سے پہلے کے دور سے متعلق ہو لہٰذا جب تک تم واضح طور پر اس کو جائز اور نبی اکرمﷺ کے فرمان کی تنسیخ آپﷺ کے کسی دوسرے فرمان سے ثابت نہیںکرو گے میں نہیں مانوں گی۔ کیوں کہ فرمانِ الٰہی ہے:
﴿قَد خَسِرَ الَّذينَ قَتَلوا أَولـٰدَهُم سَفَهًا بِغَيرِ عِلمٍ ...﴿١٤٠﴾... سورة الأنعام
’’گھاٹا پا گئے وہ لوگ جنھوں نے نادانستہ طور پر اپنی اولاد کوقتل کیا۔‘‘
زید نے اپنی بیوی کو اس کی بیماری کی طرف متوجہ کرکے عزل کا جواز پیش کرتے ہوئے کہاڈاکٹروں کے بقول بچے کی پیدائش تمہارے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔ مگر وہ کہتی ہے کہ میں اپنی جان کی خاطر دوسری جان کا حق ِ زندگی تلف کرکے کیوں اُخروی ناکامی مول لے لوں تم چاہو تو عقد ثانی کرلو۔ زید جو صاحب عیال ہے اور کسی بھی صورت عقد ثانی کا خواہشمند نہیں۔ نہ ہی اسے صرف ایک خاص وجہ سے پسند کرتا ہے لِقَوْلِہٖ تَعَالیٰ﴿غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ﴾کیوں کہ اس کے خیال میں باوجود کوشش کے انصاف کا دامن اس کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور عذابِ الٰہی کا مستوجب ٹھہرے گا۔
اندریں حالات شرعِ متین کی روشنی میں بتائیے کہ زید اور اس کی زوجہ میں کس کا نظریہ درست اور راجح ہے تاکہ دارین کی زندگانی سے بھرپور انداز میں لطف اندوز بھی ہو سکیں۔ اور آخرت میں عتابِ الٰہی سے بالکل محفوظ رہیں۔
امید ہے جواب عنایت فرما کر عند اللہ اجر پائیں گے۔ جزاک اللہ فی الدارین خیرًا۔ (سائل قاراب۔ لاہور) (۴ نومبر ۱۹۹۴ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حضرت جابر اور ابوسعید رضی اللہ عنہما وغیرہ سے مروی روایات واضح طور پر عزل (بوقتِ انزال علیحدگی) کے جواز پر دال ہیں۔ لیکن یہ جواز دو وجہ سے اولوِیّت کے منافی ہے۔
اوّلاً: جماعت عورت کا حق ہے ۔ فعل ہذا کے ارتکاب سے لذتِ جماع میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ اس بناء پر اہل علم کا کہنا ہے کہ اس کا جواز عورت کی اجازت پر موقوف ہے۔ امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’ لَا خِلَافَ بَیْنَ الْعُلَمَاء ِ أَنَّهُ لَا یُعْزَلُ عَنِ الزَّوْجَةِ الْحُرَّهِ إِلَّا بِإِذْنِهَا لِأَنَّ الْجِمَاعَ مِنْ حَقِّهَا وَلَهَا الْمُطَالَبَةُ بِهِ وَلَیْسَ الْجِمَاعُ الْمَعْرُوفُ إِلَّا مَا لَا یَلْحَقُهُ عزل‘ (فتح الباری،ج:۹،ص:۳۰۸)
’’یعنی اہل علم کا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ آزاد عورت سے عزل اس کی اجازت سے ہونا چاہیے کیونکہ جماع عورت کا حق ہے وہ اس کا مطالبہ کر سکتی ہے اور معروف جماع وہی ہے جس میں عزل نہ ہو۔ اس کے باوجود شوافع کا اس میں اختلاف موجود ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جماع میں عورت کا اصلاً کوئی حق نہیں۔‘‘
دوسری وجہ یہ ہے کہ اس سے تکثیرِ نسل میں کمی واقع ہوتی ہے جو شریعت کا مطلوب ہے۔ البتہ امام ابن حزم نے جذامہ بنت وہب کی حدیث:
’أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنِ الْعَزْلِ فَقَالَ ذَلِكَ الْوَأْدُ الْخَفِیُّ ‘(صحیح مسلم،بَابُ جَوَازِ الْغِیلَةِ، وَهِیَ وَطْء ُ الْمُرْضِعِ، وَکَرَاهَةِ الْعَزْلِ،رقم۱۴۴۲)
یعنی’’ نبیﷺ سے عزل کے بارے میں سوال ہوا تو جواباً فرمایا یہ خفیہ زندہ درگور کرنا ہے۔‘‘ کی بناء پر وطی کو واجب اور عزل کو حرام قرار دیا ہے ، لیکن ان کا یہ نظریہ درست نہیں ہے۔ چنانچہ ترمذی اور نسائی میں حدیث ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہماری کچھ لونڈیاں تھیں اور ہم ان سے عزل کرتے تھے۔ یہود نے کہا یہ تو چھوٹا زندہ درگور کرنا ہے یعنی زندہ اولاد کے بالمقابل ۔ پس آپﷺ سے دریافت ہوا تو فرمایا : یہود جھوٹے ہیں اگر اللہ مخلوق پیدا کرنی چاہے کوئی اسے روک نہیں سکتا۔
امام بیہقی رحمہ اللہ نے رفع تعارض کی صورت یہ اختیار کی ہے کہ جذامہ کی حدیث کراہت تنزیہی پر محمول ہے اور بعض نے جذامہ کی حدیث کو ضعیف قرار دینے کی سعی کی ہے۔ لیکن یہ بات درست نہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’وَالْحَدِیثُ صَحِیحٌ لَا رَیْبَ فِیهِ وَالْجَمْعُ مُمْکِنٌ ‘
’’یعنی بلاشبہ حدیث صحیح ہے اور متعارض حدیثوں میں تطبیق و جمع ممکن ہے۔‘‘
اور بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ حدیث منسوخ ہے مگر تاریخ معلوم نہ ہونے کی بناء پر اس پر نسخ کا حکم نہیں لگ سکتا۔ امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: احتمال ہے کہ حدیث جذامہ آپﷺ نے اہل کتاب کی موافقت میں فرمائی ہو کیونکہ غیر مامور بہ امور میں آپ اہل کتاب کی موافقت پسند فرماتے تھے۔ بعد میں اللہ نے اس کے حکم سے آگاہ فرمایا تو یہود کی تکذیب کردی۔ لیکن ابن رشد اور پھر ابن العربی نے اس کا تعاقب یوں فرمایا ہے کہ آپﷺ یہود کی پیروی میں کسی بات کو بالجزم بیان کریں اور پھر اسی امر میں ان کی تکذیب کی بھی تصریح کردیں یہ کیسے ہو سکتا ہے ! بحث کے اختتام پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
’ وَجَمَعُوا أَیْضًا بَیْنَ تَکْذِیبِ الْیَهُودِ فِی قَوْلِهِمُ الْمَوْء ُودَةُ الصُّغْرَی وَبَیْنَ إِثْبَاتِ کَوْنِهِ وَأْدًا خَفِیًّا فِی حَدِیثِ جُذَامَةَ بِأَنَّ قَوْلَهُمُ الْمَوْء ُودَةُ الصُّغْرَی یَقْتَضِی أَنَّهُ وَأْدٌ ظَاهِرٌ لَکِنَّهُ صَغِیرٌ بِالنِّسْبَةِ إِلَی دَفْنِ الْمَوْلُودِ بَعْدَ وَضْعِهِ حَیًّا فَلَا یُعَارِضُ قَوْلُهُ إِنَّ الْعَزْلَ وَأْدٌ خَفِیٌّ فَإِنَّهُ یَدُلُّ عَلَی أَنَّهُ لَیْسَ فِی حُکْمِ الظَّاهِرِ أَصْلًا فَلَا یَتَرَتَّبُ عَلَیْهِ حُکْمٌ وَإِنَّمَا جَعَلَهُ وَأْدًا مِنْ جِهَةِ اشْتِرَاکِهِمَا فِی قَطْعِ الْوِلَادَةِ وَقَالَ بَعْضُهُمْ قَوْلُهُ الْوَأْدُ الْخَفِیُّ وَرَدَ عَلَی طَرِیقِ التَّشْبِیهِ لِأَنَّهُ قَطَعَ طَرِیقَ الْوِلَادَةِ قَبْلَ مَجِیئِهِ فَأَشْبَهَ قَتْلَ الْوَلَدِ بعد مَجِیئه قَالَ ابن الْقَیِّمِ الَّذِی کَذَبَتْ فِیهِ الْیَهُودُ زَعْمُهُمْ أَنَّ الْعَزْلَ لَا یُتَصَوَّرُ مَعَهُ الْحَمْلُ أَصْلًا وَجَعَلُوهُ بِمَنْزِلَةِ قَطْعِ النَّسْلِ بِالْوَأْدِ فَأَکْذَبَهَمْ وَأَخْبَرَ أَنَّهُ لَا یَمْنَعُ الْحَمْلَ إِذَا شَاءَ اللَّهُ خَلْقَهُ وَإِذَا لَمْ یُرِدْ خَلْقَهُ لَمْ یَکُنْ وَأْدًا حَقِیقَةً وَإِنَّمَا سَمَّاهُ وَأْدًا خَفِیًّا فِی حَدِیثِ جُذَامَةَ لِأَنَّ الرَّجُلَ إِنَّمَا یَعْزِلُ هَرَبًا مِنَ الْحَمْلِ فَأَجْرَی قَصْدَهُ لِذَلِكَ مَجْرَی الْوَأْدِ لَکِنَّ الْفَرْقَ بَیْنَهُمَا أَنَّ الْوَأْدَ ظَاهِرٌ بِالْمُبَاشَرَةِ اجْتَمَعَ فِیهِ الْقَصْدُ وَالْفِعْلُ وَالْعَزْلُ یَتَعَلَّقُ بِالْقَصْدِ صِرْفًا فَلِذَلِكَ وَصَفَهُ بِکَوْنِهِ خَفِیًّا ۔‘ (فتح الباری ،ج:۹،ص:۳۰۹)
عبارت ہذا کا مفہوم یہ ہے:
تعارض:اس مقام پر دو احادیث کے درمیان ظاہری تعارض کا حل پیش کیا گیا ہے۔ پہلی وہ حدیث جس میں رسول اللہﷺ نے یہود کی تکذیب فرمائی ہے۔ یہود کا کہنا تھا کہ عزل موؤدۃ صغریٰ (یعنی وأد صغیر چھوٹا زندہ درگور کرنا) ہے تو آپ نے انھیں جھوٹا قرار دیا۔ دوسری حدیث وہ جس میں آپ نے فرمایا کہ عزل وأد خفی ہے۔ یعنی ایک حدیث میں عزل کو وأدِصغیر کہنے کی نفی ہے اور دوسری حدیث میں عزل کو وأدِ خفی کہنے کا اثبات ہے۔
رفع تعارض۔ تو علماء نے ان دونوں احادیث کے درمیان تطبیق یہ دی کہ یہود کی تکذیب اس لیے کی کہ ان کی بات کی رُو سے یہ حقیقی اور ظاہری وأد ہے مگر مولود کو زندہ دفن کرنے کی نسبت ذرا کم ہے ۔ نتیجتاً اس وعید کے تحت آتا ہے کہ ﴿ وَاِِذَا الْمَوْءٗ دَةُ سُئِلَتْ﴾ اور جو نبیﷺ نے یہ فرمایا ہے: ’اِنَّ الْعَزْلَ وَأْدٍ خَفِیٍ‘(فتح الباری ،ج:۹،ص:۳۰۹)
یہ جملہ اس بات پر دلالت کرتا ہے۔ یہ عزل ظاہری( یعنی حقیقی) وأد ہے ہی نہیں کہ اس پر کوئی حکم یا وعید مترتب ہو مگر چونکہ مولود کو زندہ دفن کرنا اور عزل کرنا دونوں کانتیجہ قطع الولادۃ ہے۔ لہٰذا اس اشتراک کی وجہ سے اسے وأد قرار دیا۔ جب کہ حقیقی وأد نہیں ہے تبھی تو اسے وأد خفی فرمایا۔ چنانچہ دونوں احادیث باہم متعارض نہ رہیں۔
دیگر تطبیق: بعض نے کہا ہے کہ عزل پر وأد کا اطلاق باہمی مشابہت کی وجہ سے کیا گیا ہے۔ کیونکہ عزل میں مولود کے پیدا ہونے سے پہلے ولادت کے ذریعے کو قطع کیا گیا ہے لہٰذا یہ مولود کے پیدا ہوجانے کے بعد اسے قتل کردینے کے مشابہ ہوا۔ لہٰذا علی وجہ التشبیہ عزل کو وأد قرار دیا علی وجہ الحقیقۃ نہیں۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ آپﷺ نے یہودیوں کو اس لیے جھوٹا قرار دیا کہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ عزل کی صورت میں حمل قرار نہیں پا سکتا یعنی عزل حمل سے مانع ہے اوران کے نزدیک یہ قطع نسل کے سلسلے میں ویسے ہی ہے جیسے زندہ دفن کرنا لہٰذا آپ نے انھیں جھوٹا قرار دیا۔ اور خبر دی کہ عزل حمل سے مانع نہیں بلکہ اللہ چاہے تو اسے پیدا کردے اوراگر اللہ اسے پیدا کرنے کا ارادہ ہی نہ کرے تو وہ وأد خفی نہ رہا اور آپﷺ نے جذامہ کی روایت میں اسے وأدِ خفی کا نام اس لیے دیا کیونکہ عزل کرنے والا اس لیے عزل کرتا ہے تاکہ حمل نہ قرار پائے یعنی وہ حمل سے فرار حاصل کرنا چاہتا ہے لہٰذا اس کے ارادہ اور قصد کو وأد کے قائم مقام قرار دیا لیکن دونوں میں فرق واضح ہے اور وہ یہ کہ حقیقی وأد وہ ہوتا ہے کہ جس میں انسان کا ارادہ بھی شامل ہو اور براہِ راست وأد کے فعل کا بھی ارتکاب کرلے جب کہ عزل کا تعلق خالص ارادہ اور قصد سے ہوتا ہے اس وجہ سے اسے وأد خفی کہا ہے۔
شیخنا علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب ’’آداب الزفاف فی السنة المطھرۃ(ص:۵۵،طبع۳) میں مذکور تطبیق کو خوب پسند فرمایا ہے۔ اس سے سائل کے بھی جملہ اشکالات کا ازالہ بطریقِ احسن ہو جاتا ہے۔ نیز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فرامین کا تعلق جملۂ عہد نبوت سے ہے۔ تخصیص کی کوئی دلیل نہیں۔ اصولِ حدیث میں مدوّن نسخ کی صورتوں میں( نص میں نسخ کی تصریح۔ تاریخ کا علم جمع ناممکن ہو صحابی کی وضاحت وغیرہ) میں سے کوئی صورت بھی اس پر منطبق نہیں ہوتی۔ بالخصوص جب کہ فرمانِ نبوی ’اِعْزِلْ عَنْهَا اِنْ شِئْتَ‘(صحیح مسلم،بَابُ حُکْمِ الْعَزْلِ، رقم:۱۴۳۹،سنن أبی داؤد،بَابُ مَا جَاء َ فِی الْعَزْلِ،رقم: ۲۱۷۳) ’’اگر چاہو تو عزل کرلو۔‘‘ میں اذن مأثور ہے۔ لہٰذا جمع و تطبیع ہی اصل ہے۔ کما تقدم
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب