السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جنین میں روح پڑنے سے پہلے اسقاط حمل کرنے سے گناہ ہوتا ہے یا نہیں؟ نیز وسائل کی کمی کی وجہ سے بچوں کی تعداد میں کمی کرنے کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صورت ِ مذکورہ میں جسمانی طور پر بچے کے چوں کہ بنیادی تخلیقی مراحل مکمل ہو چکے ہوتے ہیں، لہٰذا اسقاطِ حمل ناجائز ہے ۔ بلکہ خلقت کے آغاز میں بھی اسقاط ناجائز ہے۔ ہاں البتہ کسی طبی وغیرہ ضرورت کی بناء پر فقہائے کرام نے چالیس دن سے قبل اخراج نطفہ کی اجازت دی ہے۔ (فتاویٰ اسلامیہ:۱۸۹/۳)
ہمارے شیخ علامہ محمد الامین الشنقیطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’إِذَا مَجَّتِ الرَّحِمُ النُّطْفَةَ فِی طَوْرِهَا الْأَوَّلِ قَبْلَ أَنْ تَکُونَ عَلَقَةً، فَلَا یَتَرَتَّبُ عَلَی ذَلِكَ حُکْمٌ مِنْ أَحْکَامِ إِسْقَاطِ الْحَمْلِ، وَهَذَا لَا خِلَافَ فِیهِ بَیْنَ الْعُلَمَاء ِ.‘ (تفسیر اضواء البیان:۳۲/۵)
’’وسائل کی کمی کی وجہ سے اولاد کی تعداد میں کمی کرنا شرعاً ناجائز ہے کیونکہ یہ فعل اس انسانی فطرت کے خلاف ہے جو اللہ نے انسانوں میں ودیعت رکھی ہے اور شرع نے جس کی تحریض و ترغیب دی ہے۔ لہٰذا خاندانی منصوبہ بندی کے مختلف عصری ذرائع اختیار کرنا گویا جاہلی اعمال کی شکلوں میں سے ایک شکل ہے اور ساتھ ہی ساتھ اللہ پر بدگمانی کا اظہار ہے ،فقرو فاقہ کے ڈر سے بالخصوص اس کا مرتکب ہونا جائز نہیں۔ چنانچہ قرآن میں ہے:﴿إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزّاقُ ذُو القُوَّةِ المَتينُ ﴿٥٨﴾... سورة الذاريات
’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ ہی بہت زیادہ رزق دینے والا زور آور مضبوط ہے۔‘‘
نیز فرمایا:
﴿ وَما مِن دابَّةٍ فِى الأَرضِ إِلّا عَلَى اللَّهِ رِزقُها ... ﴿٦﴾... سورة هود
’’اور زمین پر چلنے پھرنے والا کوئی نہیں مگر اس کا رزق اللہ کے ذمے ہے۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب