السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اپنے ذاتی مسائل و وسائل کو سامنے رکھتے ہوئے وقت کے تقاضوں کے مطابق موجودہ بچوں کی صحیح طور پر تعلیم و تربیت کی خاطر کیا مزید بچے پیدا نہ کرنے کی گنجائش ہے؟ بے شک رزق اللہ دیتا ہے۔ اور بھوکا کوئی نہیں مرتا۔ مگر یہ بات مشاہدہ کی ہے کہ کم وسائل والے آدمی کی کثیر اولاد مناسب تعلیم وتربیت کی کمی یا نہ ہونے کی وجہ سے خود بھی ناگفتہ بہ حالت میں ہوتے ہیں۔ بلکہ اکثر اوقات ہمسایوں اور معاشرہ کے لیے بھی تکلیف دہ ثابت ہوتے ہیں۔ کیوں کہ حالات کے پیش نظر عمومی معیارِ زندگی بدل گیا ہے۔ جو چیزیں کل کلاں عیش و عشرت کا سامان تھیں۔ آج ضروریاتِ زندگی بن چکی ہیں۔ ان کا انکار کرنا مشکل امر ہے کیونکہ انسان کو انسانوں کی طرح رہنے کا حق ہے۔ مزید یہ کہ آسودگی میں انسان دین و مذہب پر بھی توجہ دیتا ہے جبکہ جہالت و افلاس نے منکر انسانوں کو شرک و گمراہی میں دھکیلا ہوا ہے۔ بے شک اس کے مقابلہ میں کثرت ِ دولت بری چیز ہے جو عیاشی اور تکبر کو جنم دے کر انسانوں کوگمراہ کرتی ہے۔ مگر سوال کا مدعا اوسط درجہ کی زندگی کے حصول کے متعلق ہے۔ (۱۵ نومبر ۱۹۹۶)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس طرح کی حیلہ سازی دراصل عقیدۂ توحید میں ضعف و کمزوری کی مظہر ہے۔ اللہ رب العالمین صرف انسان کا روزی رساں نہیں بلکہ ہر ذی روح اور متنفس کی روزی کا ذمہ اس نے پہلے روز سے لیا ہوا ہے۔ ہر جنس کو اس کی طبیعت کے مطابق رزق مہیا کرکے اپنے رزاق ہونے کا ثبوت ہر آن دے رہا ہے۔
﴿إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزّاقُ ذُو القُوَّةِ المَتينُ ﴿٥٨﴾... سورة الذاريات
لیکن کمزور فطرت انسان ہے کہ اس کے دل و دماغ میں یہ بات سماتی نہیں۔ محدود وسائل پر عارضی تسلّط کی وجہ سے اپنے کو رزاق سمجھ بیٹھا ہے۔ کمی اولاد کی صورت میں صحیح تعلیم وتربیت کا دعویٰ محض ایک مفروضہ ہے۔ جس کا حقیقت ِ حال سے کوئی تعلق نہیں۔ لیل و نہار ہمارے مشاہدے میں ہے۔ بہت سارے لوگ ایسے ہیں کہ کثرت ِ اولاد کے باوجود انھوں نے اولاد کی تربیت میں مثالی کردار ادا کیا اور وہ بھی ہیں جن کی اولاد کم لیکن تعلیم و تربیت سے عاری۔
شریعت ِ اسلامیہ میں تکثیر اولاد میں ترغیب کے نصوص سے یہ بات عیاں ہے کہ اسلام میں تحدید نسل کا کوئی تصور نہیں۔ راوی کا بیان ہے بصرہ میں حجاج کی آمد(۷۵ ہجری) کے وقت حضرت انس رضی اللہ عنہ کے حقیقی بچے ایک سو بیس سے اوپر فوت ہو چکے تھے۔ (صحیح البخاری،بَابُ مَنْ زَارَ قَوْمًا فَلَمْ یُفْطِرْ عِنْدَہُمْ،رقم:۱۹۸۲)
اور’’صحیح مسلم‘‘میں اسحاق بن ابی طلحہ کی روایت میں ہے۔ زندہ اولاد و احفاد سوء کے قریب تھے۔ آپﷺ نے بایں الفاظ اس کے لیے دعا کی تھی۔
’ اللَّهُمَّ ارْزُقْهُ مَالًا وَوَلَدًا، وَبَارِكْ لَهُ فِیهِ‘ (صحیح البخاری،بَابُ مَنْ زَارَ قَوْمًا فَلَمْ یُفْطِرْ ِعنْدَهُمْ،رقم:۱۹۸۲)
اس بناء پر ان کا باغ سال میں دو دفعہ ثمر آور ہوتا تھا۔ دراصل جب سے ہم میں فکر جہاد مفقود ہوئی ہے۔ اس وقت سے ہم کمی اولاد کی برکات کے وسوسوں میں مبتلا ہوگئے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ جذبۂ سلیمانی علیہ السلام کو لے کر مسابقت کی راہ اختیار کرتے۔ لیکن ہماری ترقی معکوس ہے۔ رب العزت سب کو سمجھ عطا فرمائے۔ پھرآسودگی کا دین و مذہب کی طرف توجہ کا باعث بننا محض خوش فہمی ہے تاریخ اوائل اس کی نفی کرتی ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب