السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اولاد میں ۲ یا ۳ سال کا وقفہ کرنے کا اقدام کیسا ہے؟ جب کہ نیت یہ ہو کہ بچے کی تربیت بہتر ہو جائے، اور صحت بھی اتنی مشقت اٹھانے کی ہر سال متحمل نہ ہو؟ کیونکہ آج کل قدرتی وقفہ بالکل نہیں ہوتا؟ (مسز آسیہ۔ لاہور) (۵ اپریل ۱۹۹۶ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عورت کی صحت کے پیش نظر اولاد میں عارضی وقفہ کا جواز ہے۔ کیونکہ اسلام نے کراہت کے ساتھ بوقت ضرورت عزل (بوقت انزال علیحدہ ہو جانا) کی اجازت دی ہے۔ فرمایا:
’کُنَّا نَعْزِلُ عَلَی عَهْدِ النَّبِیِّ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَالقُرْآنُ یَنْزِلُ.وَ زَادَ مُسْلِمٌ فَبَلَغَ ذَلِكَ نَبِیَّ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ یَنْهَنَا‘(صحیح البخاری، بَابُ العَزْلِ، رقم:۵۲۰۹، صحیح مسلم،بَابُ حُکْمِ الْعَزْلِ،رقم:۱۴۴۰)
یعنی ہم اس دور میں عزل کرتے جب کہ قرآن اترتا تھا۔‘‘ یہ روایت بخاری اور مسلم کی ہے اور مسلم نے یہ الفاظ زیادہ کیے۔‘‘ پس اس کی خبر نبیﷺ کو پہنچی تو ہم کو منع نہ کیا۔‘‘
اسی طرح دیگر عارضی ذرائع اختیار کرنے کا بھی بظاہر کوئی حرج نہیں بشرطیکہ عورت کی کمزور ی پیش نظر ہو۔ مسئلہ ہذا پر تفصیلی گفتگو پہلے الاعتصام میں شائع ہو چکی ہے۔ (جلد:۴۶، شمارہ:۴۴)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب