سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(894) تامرگ بھوک ہڑتال غیر اسلامی فعل ہے

  • 26009
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 855

سوال

(894) تامرگ بھوک ہڑتال غیر اسلامی فعل ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

(۱)تامرگ بھوک ہڑتال کرنا اسلام میں جائز ہے یا ناجائز؟

(۲)اور اگر ناجائز ہے تو اس کی شرعی سزا کیا ہے؟

(۳) تامرگ بھوک ہڑتال کرنے والے کی حمایت کرنا جائز ہے یا ناجائز؟

(۴) اگر ناجائز ہے تو اس کی سزا کیا ہوگی؟

(۵) علمائے کرام کا تا مرگ بھوک ہڑتال کے بار ے میں خاموشی اختیار کرنا کیسا ہے؟ (گلفام نبی میمن۔ حیدر آباد) (۲۱ فروری ۱۹۹۲ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تامرگ بھوک ہڑتال کرنا غیر اسلامی تصور اور اللہ کی رحمت سے یأس اور ناامیدی کی عکاسی کرتا ہے۔ ایک مومن کے لائق نہیں ہے کہ لمحہ بھر بھی اپنے محسن اعظم اللہ رب العزت سے روگردانی کرکے تعلق منقطع کرے ۔ نفع و نقصان اور خیرو شر سب اسی کے ہاتھ میں ہے۔

کائنات کے فہیم ترین انسان حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  کو رسولِ اعظمﷺ نے فرمایا تھا:

’ وَاعْلَمْ أَنَّ الأُمَّةَ لَوْ اجْتَمَعَتْ عَلَی أَنْ یَنْفَعُوكَ بِشَیْء ٍ لَمْ یَنْفَعُوكَ إِلاَّ بِشَیْء ٍ قَدْ کَتَبَهُ اللَّهُ لَكَ، وَلَوْ اجْتَمَعُوا عَلَی أَنْ یَضُرُّوكَ بِشَیْء ٍ لَمْ یَضُرُّوكَ إِلاَّ بِشَیْء ٍ قَدْ کَتَبَهُ اللَّهُ عَلَیْكَ، رُفِعَتِ الأَقْلاَمُ وَجَفَّتْ الصُّحُفُ ‘(سنن الترمذی، و قال حدیث حسن صحیح، ،رقم:۲۵۱۶، عمل الیوم واللیلة لابن السنی ،رقم:۴۲۵)

’’یعنی سب لوگ جمع ہو کر اگر تجھے کوئی بھلائی پہنچانا چاہیں تو صرف اسی قدر دے سکتے ہیں جو کچھ اللہ نے تیرے لیے لکھا ہے۔ اور اگر سب لوگ جمع ہو کر تجھے نقصان پہنچانا چاہیں تو صرف اسی قدر پہنچا سکتے ہیں جو تیرے مقدر میں ہے۔ قلمیں کتابت سے فارغ ہو چکیں اور صحیفے خشکی کا مظہر ہیں۔‘‘

اور دوسری روایت میں ہے:

’ اِحْفَظِ اللّٰهَ تَجِدْهُ اِمَامَكَ ، تَعْرِفْ اِلَی اللّٰهِ فِی الرِّخَاءِ یَعْرِفْكَ فِی الشِّدَّةِ ‘(مسند احمد،رقم:۲۸۰۳،المعجم الکبیر للطبرانی،رقم:۱۱۲۴۳)

’’ یعنی اللہ سے تعلق پیدا کر تو اُسے سامنے پائے گا ۔ آسانی میں اسے راہ و رسم پیدا کر وہ سختی میںتجھے پہچان لے گا۔‘‘

قرآنِ مجید نے حضرت یعقوب علیہ السلام  کا قول بایں الفاظ نقل کیا ہے:

﴿يـٰبَنِىَّ اذهَبوا فَتَحَسَّسوا مِن يوسُفَ وَأَخيهِ وَلا تَا۟يـَٔسوا مِن رَوحِ اللَّهِ إِنَّهُ لا يَا۟يـَٔسُ مِن رَوحِ اللَّهِ إِلَّا القَومُ الكـٰفِرونَ ﴿٨٧﴾... سورة يوسف

’’بیٹا(یوں کرو کہ ایک دفعہ پھر) جاؤ اور یوسف اور ان کے بھائی کو تلاش کرو اور اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو کہ اللہ کی رحمت سے بے ایمان لوگ نا اُمید ہوا کرتے ہیں۔‘‘

دوسری جگہ فرمایا:

﴿أَمَّن يُجيبُ المُضطَرَّ إِذا دَعاهُ وَيَكشِفُ السّوءَ وَيَجعَلُكُم خُلَفاءَ الأَرضِ أَءِلـٰهٌ مَعَ اللَّهِ قَليلًا ما تَذَكَّرونَ ﴿٦٢﴾... سورة النمل

’’بھلا کون بے قرار کی التجا قبول کرتا ہے جب وہ اس سے دعا کرتا ہے اور(کون اس کی) تکلیف کو دُور کرتا ہے اور(کون ) تم کو زمین میں(اگلوں کا) جانشین بناتا ہے( یہ سب کچھ اللہ کرتا ہے) تو کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی معبود ہے۔(ہرگز نہیں)‘‘

نیز فرمایا:

﴿وَلا تُلقوا بِأَيديكُم إِلَى التَّهلُكَةِ ...﴿١٩٥﴾... سورة البقرة

نیز مصائب و مشکلات سے نجات حاصل کرنے کے لیے نبی کریمﷺکا طریقۂ کار یہ تھا کہ آپﷺ نماز میں منہمک ہو جاتے تھے۔

ان نصوصِ صریحہ سے معلوم ہوا کہ ہر حالت میں اعتماد بندوں کی بجائے صرف اللہ کی ذات پر ہونا چاہیے۔ کلمہ لاحول و لا قوۃ الا باللّٰہ کا مفہوم بھی یہی ہے۔

اور اگر کوئی ناعاقبت اندیش اس حالت میں مر جاتا ہے تو اس نے علی وجہ البصیرت جہنم کا مہنگا سودا کیا ہے۔ اہل اصول فرماتے ہیں:

’ مَنْ تَعَجَّلَ بِشَیْئٍ قَبْلَ اَوَانِه عُوْقِبَت بِحُرُمَانِه ‘

دوسرے لفظوں میں اس فعل کا نام خود کشی بھی رکھا جا سکتاہے جس کی وعید کے بارے میں کتاب وسنت میں بے شمار نصوص ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔

بہر صورت فعل ہذا کے ارتکاب سے اجتناب ایک ضروری امر ہے۔ اس لیے کہ انسانی جسم چونکہ اللہ کی امانت ہے لہٰذا اس کی حفاظت بذمہ انسان ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿ وَلا تَقتُلوا أَنفُسَكُم إِنَّ اللَّهَ كانَ بِكُم رَحيمًا ﴿٢٩﴾... سورة النساء

’’اور اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو کچھ شک نہیں کہ اللہ تم پرمہربان ہے۔‘‘

ذمہ داران سے مطالبات تسلیم کرانے کی بیسیوں شکلیں ہیں۔ کسی بھی مباح شکل کو بطورِتدبیر اختیار کیا جا سکتا ہے۔ بِیَدِهِ الْخَیْر اِنَّهٗ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْر

علماء پر ضروری ہے کہ منکر کا انکار کریں تاکہ فعل تقصیر سے بری الذمہ قرار پائیں۔ واللہ ولی التوفیق۔ اور مرتکب کی شرعی سزا صرف تائب ہونا ہے۔

’اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهٗ ‘(سنن ابن ماجه،بَابُ ذِکْرِ التَّوْبَةِ،رقم:۴۲۵۲)

     ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،متفرقات:صفحہ:606

محدث فتویٰ

تبصرے