السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں ایک P.C.Oپر کام کرتا ہوں لیکن گرمی کی شدت کی وجہ سے ڈاکٹر نے دکان پر بیٹھنے سے منع کیا ہوا ہے کیونکہ مجھے گردوں کی تکلیف ہے لہٰذا دکان پر میرے ساتھ ایک عیسائی عورت جس کی عمر غالباً ۵۰ سال ہے کام کرتی ہے۔ صبح نو بجے سے شام ساڑھے سات بجے تک وہی ڈیوٹی دیتی ہے ، اس نے دکان پر اپنے مذہب کے مطابق دو اسٹیکر لگائے ہوئے ہیں۔
(۱) یہواہ لیری سب کچھ مہیا کرتا ہے۔
(۲) With Jessus All Thing are Possible
میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ یہواہ لیری عبرانی لفظ ہے۔ اور اس کا مطلب’’اللہ‘‘ ہے بائبل کی ایک آیت ہے۔ اس لیے میں خاموش رہا ویسے بھی اس آبادی میں ۹۵ فیصد آبادی عیسائیوں کی ہے۔ میری عقل کے مطابق ہمارا مذہب نفرت کی اجازت نہیں دیتا۔ میرا اپنا مذہب ہے، اس کا اپنا مذہب ہے، میں اسی جگہ قرآن پاک کی تلاوت کرتا ہوں ، نماز پڑھتا ہوں ، وہ بائبل پڑھتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں کسی پر پابندی نہیں لگانی چاہیے لیکن میرا ایک بہت پرانا مخلص ساتھی مجھ سے اس بات پر ناراض ہو گیا ہے حالانکہ دین کا اس کے پاس بہت زیادہ علم ہے، اس کا مطالبہ یہ ہے کہ اس کے اسٹیکر اتار دو،ورنہ میں اتار دیتا ہوں۔ میں نے اس کو بڑے پیار سے سمجھایا کہ نفرت نہ پھیلاؤ، پیار محبت سے تو بات کی جا سکتی ہے ، کسی پر اپنا مسلک ٹھونسا نہیں جا سکتا، لیکن اس نے رواداری کی بجائے تنگ نظری کا مظاہرہ کیا اور مجھ سے ناراض ہو گیا۔ مجھے اپنے دوست کے ناراض ہونے کا بہت دکھ ہے بلکہ میں اس دن سے بیمار ہوں۔ براہِ مہربانی دینی نقطۂ نظر سے اس کا جواب دیں تاکہ مجھے سکون ہو۔(صفدر) (۱۲ ۔ اکتوبر ۲۰۰۱ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مسلمان معاشرے میں عیسائی اور دوسرے لوگ اپنے عقیدے اور مذہب کے مطابق عبادت کر سکتے ہیں۔ نجران کے عیسائیوں نے سن نو ہجری میں اپنے عقیدے کے مطابق مسجد نبوی میں عبادت کی تھی، لیکن اسلام انھیں اپنے غلط نظریات کی تشہیر کی اجازت نہیں دیتا، اس بارے میں ان پر ضرور پابندی ہونی چاہیے۔
مشکوٰۃ میں حدیث ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ رسولِ اکرمﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے ان کے ہاتھ میں تورات کا نسخہ تھا۔ عرض کی: یا رسول اللہ! یہ تورات کا نسخہ ہے۔ آپﷺ نے خاموشی اختیار کی عمر نے پڑھنا شروع کیا تو آپﷺکا چہرۂ انور متغیر ہو گیا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے توجہ دلانے پر ان کو محسوس ہوا کہ میرا فعل درست نہیں۔ انھوں نے تعریفی کلمات کے ساتھ معذرت کا اظہار کیا تو آنحضرت نے انھیں مخاطب ہو کر فرمایا:
’’مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد(ﷺ) کی جان ہے! اگر آج موسیٰ علیہ السلام تشریف لے آئیں اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی پیروی کرنے لگ جا ؤ تو سیدھی راہ سے بھٹک جاؤ، پھر فرمایا: ’’موسیٰ علیہ السلام اگر زندہ ہوتے اور میری نبوت کو پالیتے تو وہ بھی میری پیروی کرتے۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ اسلام کی آمد کے بعد واجب الاتباع صرف اور صرف حضرت محمدمصطفیﷺ ہیں، یہی پیغام عام کرنا چاہیے تاکہ دنیا و آخرت کی سرخ روئی حاصل ہو۔
’’صحیح مسلم‘‘ میں حدیث ہے کہ: مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے ، جب کسی یہودی یا نصرانی کو میری آمد کا علم ہو گیا۔ لیکن وہ مجھ پر ایمان لائے بغیر مر گیا تو وہ یقینا جہنمی ہے۔‘‘
دوسری روایت میں ہے یہود و نصاریٰ میں سے مسلمان ہونے والے کے لیے دوہرا ثواب ہے۔‘‘
بنا بریں محترمہ کو خوش اسلوبی کے ساتھ اسلام کے خصائص و امتیازات سے آگاہ کرتے رہنا چاہیے شاید اس کی ہدایت کا سبب بن جائے، البتہ آپ اس کے اسٹیکر اتروا دیں کیونکہ یہ بھی دعوت کا ایک حصہ ہے ۔ اس کے بجائے قرآن و حدیث پر مشتمل پوسٹر آویزاں کریں اور اکثر آبادی عیسائی ہونے کی صورت میں آپ پر مزید فرض عائد ہوتا ہے کہ اس ماحول میں اسلامی تعلیمات کو عام کریں۔ اللہ رب العزت توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب