سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(865) کیا اللہ نے ہمارا نام مسلم رکھا ہے ، اور کیا اہل سنت یا اہل حدیث کہلوانا فرقہ بندی ہے؟

  • 25980
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2149

سوال

(865) کیا اللہ نے ہمارا نام مسلم رکھا ہے ، اور کیا اہل سنت یا اہل حدیث کہلوانا فرقہ بندی ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اللہ نے ہمارا نام مسلم رکھا ہے ، لہٰذا اہل سنت یا اہل حدیث کہلوانا ناجائز اور فرقہ سازی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عہدِ رواں میں اس لا یعنی بحث مباحثے کا بانی مسعود احمد ہے ، محدثین عظام کی تضہیک ،ان کے کارہائے نمایاں کا منہ چڑانا ، اسلام کا لیبل لگا کر جہمیہ، معتزلہ، خوارج اور دیگر باطل فرقوں کی در پردہ وکالت کرنا اس کا وطیرہ ہے۔ مگر یاد رہے کہ:

﴿يُريدونَ أَن يُطفِـٔوا نورَ اللَّهِ بِأَفو‌ٰهِهِم وَيَأبَى اللَّهُ إِلّا أَن يُتِمَّ نورَهُ وَلَو كَرِهَ الكـٰفِرونَ ﴿٣٢﴾...سورة التوبة

بالفرض اگر ان کا دعویٰ تسلیم کر لیا جائے تو الفاظ قرآنی کے عموم کے پیش نظر اس کا اور اس کے جملہ حواریوںکا نام بھی المسلمین ہی ہونا چاہیے تھا، جب کہ واقعات اس کی تکذیب کر رہے ہیں۔ اصل صورت حال یہ ہے کہ آیت کریمہ میں’’مسلمین‘‘ نام بطورِ صفت بیان ہوا ہے بطورِ علم نہیں۔ چناں چہ سورۃ الاحزاب میں مسلمین ہی کی متعدد دیگر صفات ذکر ہوئی ہیں، اس کے علاوہ ’’مسند امام احمد‘‘ کی صحیح حدیث میں ہے:

’ فَادْعُوا الْمُسْلِمِیْنَ بِاَسْمَائِهِمْ بِمَا سَمَّاهُمُ اللّٰهُ عَزَّوَجلَّ : اَلْمُسْلِمِیْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ، عِبَادَ اللّٰهِ عَزوَّوَجَلَّ‘(مسند احمد،رقم ۱۷۱۷۰)

’’پس تم مسلمین کو ان ناموں کے ساتھ پکارو جو نام اللہ عزوجل نے ان کے رکھے ہیں، یعنی مسلمین مومنین، عباد اللہ۔‘‘

مذکورہ آیت اور حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمین کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ نے ہمارے وصفی نام رکھے ہیں، جن سے چنداں انکار ممکن نہیں۔ مزید یہ کہ ان حضرات نے لفظ جماعت کا اضافہ کرکے اپنے فرقے کا نام’’جماعت المسلمین‘‘ رکھا ہے ، جو قرآنی الفاظ پر زیادتی ہے۔ اگر کوئی کہے کہ یہ نام ہم نے حدیث حذیفہ رضی اللہ عنہ  سے لیا ہے تو پھر بطورِ استدلال قرآنی آیت پیش کرنا درست نہ ہوا، آیت کی بجائے حدیث حذیفہ کا نام لینا چاہیے جب کہ امر واقع یہ ہے کہ حدیث میں اس کا نام و نشان تک نہیں، حدیث میں گول تا (ة ئة) سے اس طرح جماعۃ المسلمین ہے، جب کہ ان کی جماعت کا نام ، جماعت المسلمین ، لمبی تا سے ہے جو اس کے بے اصل اور جعلی ہونے کی واضح دلیل ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ حدیث حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مصنوعی جماعت مراد نہیں، بلکہ اس سے مقصود مسلمانوں کی اجتماعی ہے۔ جو امارت و حکومت میں ایک خلیفہ پر مجتمع ہو۔ متعدد احادیث میں اس امر کی تصریح موجود ہے، امام بخاری رحمہ اللہ نے حڈیث ہذا کو ’’کتاب الفتن‘‘ میں ذکر کیا ہے، جس سے مقصود یہ ہے کہ فتنہ و فساد کے زمانے میں مسلمانوں کو کیا کردار ادا کرنا چاہیے۔ پھر اس حدیث پر بایں الفاظ تبویب قائم کی ہے: (’بَابُ کَیْفَ الْاَمْرُ اِذَا لَمْ تَکُنْ جَمَاعَةٌ‘) یعنی جب جماعت نہیں ہوگی تو ایسے وقت میں صورتِ حال کیا ہو گی؟ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  اس کی وضاحت یوں فرماتے ہیں:

’’اس کے معنی یہ ہیں کہ کسی ایک خلیفہ پر اجتماع سے پہلے اختلاف کی حالت میں مسلم کیا طرزِ عمل اختیار کرے گا؟۔‘‘ (فتح الباری: ۳۵/۱۲)

نیز حدیث حذیفہ  رضی اللہ عنہ  میں فرقوں سے مراد سیاسی گروہ بندیاں ہیں جو کسی ایک خلیفہ اور امام کی قیادت سے محروم ہوں۔ جب منزل مقصود ایک ہو تو نام کے اختلاف سے کوئی فرق نہیں پڑتا، فرقے نام رکھنے سے نہیں بلکہ عقیدے اور نظریات کی تبدیلی سے وجود میں آتے ہیں، جس طرح معتزلہ نے اپنا نام تو اہل العدل والتوحید۔ رکھا ہوا تھالیکن پس پردہ ان کا مقصود صفاتِ الٰہیہ کا انکار تھا، چناں چہ یہ نام ان کے لیے نفع بخش ثابت نہ ہو سکا۔ اسی طرح ان لوگوں نے اپنے فرقے کا نام ’’جماعت المسلمین‘‘ رکھا ہے لیکن مقصود جہمیہ کی پیروی میں صفاتِ الٰہیہ کا انکار ہے ، لہٰذا یہ نام رکھنے سے ان لوگوں کو بھی( ان شاء اللہ) کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

واضح ہو کہ ’’اہل الحدیث، یا اہل اسنت ،کسی ایک گروہ کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ منکرین صفاتِ الٰہیہ کے مد مقابل ایک محاذ اور تحریک کا نام ہے ، جس کا مطمح نظر صرف اور صرف کتاب و سنت کی روشنی میں منہج سلف صالحین کو واضح کرنا ہے ،یہ ایک طرزِ فکر و عمل اور منہج حیات کا نام ہے۔

     ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،متفرقات:صفحہ:589

محدث فتویٰ

تبصرے