السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ ہم زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے چلے آتے ہیں۔ اس سے کیا مراد ہے؟ (سائل)( ۲۰ ۔اپریل۲۰۰۷ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ کفر دن بدن کم ہوتا جائے گا اور اہل اسلام کا غلبہ ہوگا۔ کسی نے کہا دیہات ویران ہوئے جاتے ہیں، کسی نے کہا کہ جانیں اور پھل اور میوے ضائع ہورہے ہیں اور قرطبی نے کہا حکم رانوں کا ظلم مراد ہے، ان کے ظلم کی وجہ سے زمینی اور آسمانی برکات ناپید ہوتی جائیں گی۔ (۹/ ۳۳۴) مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں:
’’زمین میں ہر طرف ایک غالب طاقت کی کار فرمائی کے یہ آثار نظر آتے ہیں کہ اچانک کبھی قحط کی شکل میں اور کبھی وباء کی شکل میں، کبھی سیلاب کی شکل میں، کبھی زلزلے کی شکل میں، کبھی سردی یا گرمی کی شکل میں اور کبھی کسی اور شکل میں کوئی بلا ایسی آجاتی ہے جو انسان کے سب کیے دھرے پرپانی پھیر دیتی ہے۔ ہزاروں لاکھوں آدمی مرجاتے ہیں، بستیاں تباہ ہوجاتی ہیں، لہلہاتی کھیتیاں غارت ہوجاتی ہیں، پیداوار گھٹ جاتی ہے، تجارتوں میں کساد بازاری آنے لگتی ہے۔ غرض انسان کے وسائل زندگی میں کبھی کسی طرف سے کمی واقع ہوجاتی ہے اور کبھی کسی طرف سے اور انسان اپنا سارا زور لگا کر بھی ان نقصانات کو نہیں روک سکتا۔‘‘ (تفہیم القرآن، ۳/ ۱۶۱)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب