سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(310) بریلوی عقیدہ رکھنے والے شخص کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں؟

  • 2595
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 5205

سوال

(310) بریلوی عقیدہ رکھنے والے شخص کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بریلوی عقیدہ رکھنے والے حنفی کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں؟ ایک امام دیوبندی عقیدہ رکھتا ہے لیکن قومہ اور جلسہ میں دعا نہیں پڑھتا اور اس کے پیچھے اہل حدیث مقتدی اس کی کچھ عجلت کی وجہ سے قومہ اور جلسہ کی دعائیں نہیں پڑھ سکتے کیا ایسے امام کے پیچھے نماز ہ وجائے گی؟


 

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 کسی بریلوی حنفی کے پیچھے نماز جائز نہیں کیونکہ ان کے بعض عقائد و اعمال شرکیہ اور کفریہ ہیں (مثلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ان کا یہ عقیدہ کہ آپ کو غیب کا کلی علم تھا اور آپ ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں۔ اور اولیا ء اللہ کائنات میں تصرف کی قوت رکھتے ہیں اور تصرف کرتے ہیں اور اہل قبور کو حاجب روا سمجھ کر ان سے استمداد و استعانت اور قبروں اور پیروں کو سجدہ  وغیرہ ذلک من القائد الکفریۃ) اور شرک و کفر کرنے والے کے پیچھے قطعاً نماز جائز نہیں ہے۔  فانہ لا فرق بین الکفرة من الیھود والنصاریٰ والھنادک وبین ھولاء القبوریین ۔ اگر یہ دیو بندی امام رکوع سے سر اٹھانے کے بعد سیدھا کھڑا ہو جاتا ہے اور سجدہ کے لیے سر جھکانے سے پہلے کچھ توقف کرکے سجدہ میں جاتا ہے اور پہلے سجدہ سے سر اٹھانے کے بعد سیدھا بیٹھ جاتا ہے اور قدرے توقف کر کے دوسرے سجدہ میں جاتا ہے تو اس کے پیچھے اہل حدیث کی نماز ہو جائے گی۔ اگرچہ یہ امام بجز تحمید کے قومہ اور جلسہ میں السجدتین کی دعا نہ پڑھے۔ اور نہ اس کی اس قدر عجلت کی وجہ سے اہل حدیث مقتدی کو پڑھنے کا موقع ملے۔ قومہ میں سیدھا کھڑا ہونا اور سجدہ کے لیے جھکنے سے پہلے اطمینان اور قدرے توقف کرنا اسی طرح دونوں سجدوں کے درمیان سیدھا بیٹھنا اور اطمینان اور کچھ توقف کرنا فرض ہے بغیر اس کے نماز صحیح نہیں ہو سکتی اور ان دونوں مقاموں میں دعا و ذکر ضروری نہیں بلکہ سنت ہے لیکن تعجب ہے ان لوگوں پر جو اپنے تئیں اہل سنت و الجماعت کہلوانے کے باوجود ان صحیح حدیثوں پر عمل نہیں کرتے جن میں قومہ اور جلسہ میں بین السجدتین کا رکوع و سجدہ کے قریب ہونا اور ان دونوں مقاموں میں دعا و ذکر مخصوص مروی اور مذکور ہے۔ (بخاری و مسلم عن انس و براء بن عازب ۔ ترمذی ابو داؤد۔ ابن ماجہ عن ابن عباس۔ احمد عن ابی ہریرۃ۔ ترمذی ابو داؤد نسائی عن رفاعۃ الزرقی۔ بخاری و مسلم عن ابی ہریرۃ مسلم نسائی عن ابن عباس مسلم ترمذی ابو داؤد نسائی ابن حبان دارقطنی عن علی) ان حدیثوں کی دعائوں کو بلا دلیل نفل نمازکے ساتھ مخصوص کرکے فرائض میں قصداً دیدہ ودانستہ اس سنت ثابتہ کو چھوڑ دیتے ہیں۔
لکنہ لیس باول قارورة کسرت فلا عجب فانہ قد سول لھم قرینھم رد السنن الصحیحة الثابتة حتی صار ذلك عادتھم فلا یبالون بما یفعلون باحادیث رسول اللّٰہ ﷺ
اور اگر یہ دیو بندی امام قومہ میں سیدھا کھڑا ہوئے اور کچھ توقف کیے ہوئے بغیر سجدہ میں گر پڑتا ہے اور پہلے سجدہ کے بعد سیدھا بیٹھنے اور قدرے توقف کرنے کے بغیر دوسرے سجدہ میں چلا جاتا ہے تو اس کے پیچھے نماز جائز نہیں۔ (محدث دہلی جلد نمبر ۹ شمارہ نمبر ۸)

فتاویٰ علمائے حدیث

کتاب الصلاۃجلد 1 ص 240۔241
محدث فتویٰ

تبصرے