السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حافظ ثناء اللہ مدنی صاحب!
سانس کے ساتھ ذکر کرنا مثال کے طور پر اللہ ہو وغیرہ پڑھتے ہوئے سانس دبا لینا، اندر والا سانس اندر اور باہر والا سانس باہر ، آہستہ سانس اور نبض کی رفتار کے ساتھ ذکر کرنا۔ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ اور جو یہ کہتے ہیں ’’ کہ جو دم غافل سو دم کافر‘‘ وغیرہ ، اس قسم کی باتوں کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ (سائل: محمد اسماعیل خان ذبیح) (۸ جون ۲۰۰۱ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ذکر کا مذکورہ طریقہ سنت سے ثابت نہیں ہے۔’’صحیح بخاری‘‘میں حدیث ہے کہ جو دین میں اضافہ کرے وہ مردود ہے اور ’’ جو دم غافل سو دم کافر‘‘ ان لوگوں کا خود ساختہ جملہ ہے شریعت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ بلکہ احادیث سے ثابت ہے کہ نیت کر لینے سے حالت ِ غفلت بھی مومن کی عبادت میں شمار ہوتی ہے۔
چنانچہ مسند ابی یعلی میں حدیث ہے: ’’ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز کراماً کاتبین کو حکم فرمائے گا کہ میرے بندوں کے لیے فلاں فلاں اجر لکھو، فرشتے کہیں گے: اے ہمارے رب! ہمیں یاد نہیں کہ اس نے یہ کام کیے ہوں اور نہ ہی ہمارے صحیفوں میں موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اس نے ان کی نیت کی تھی۔‘‘
’’سنن نسائی‘‘ میں حضرت ابوالدرداء نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ ’’ جب آدمی بستر پر لیٹتا ہے اور رات کو قیام کا ارادہ کرتا ہے لیکن صبح تک آنکھ نہیں کھلتی، اللہ اس کو بقدرِ نیت ثواب عطا کرتا ہے اور اس کی نیند رب کی طرف سے اس پر صدقہ بن جاتی ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ مذکورہ طریقہ حقائق جملہ کے خلاف ہے اور واقعات اس کی تردید کرتے ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب