سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(794) قرآن ناظرہ اور حفظ کے اختتام پر مٹھائی وغیرہ بانٹنا

  • 25909
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1186

سوال

(794) قرآن ناظرہ اور حفظ کے اختتام پر مٹھائی وغیرہ بانٹنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے مدارس اور مساجد میں عام طور پر جب کوئی طالب علم ناظرہ قرآن پڑھ لیتا ہے یا قرآن پاک مکمل حفظ کر تا ہے تو آخری سبق کسی عالم کو بلا کر سنایا جاتا ہے اور قرآن کی فضیلت یا اس پر عمل کے سلسلے میں بچوں کو وعظ و نصیحت کی جاتی ہے اور گھر والے اپنی خوشی سے مٹھائی وغیرہ تقسیم کرتے ہیں، استاد کو کپڑے یا نقدی وغیرہ بھی پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے مدارس میں’’صحیح بخاری شریف‘‘ کے اختتام پر بھی تقاریب منعقد ہوتی ہیں۔اس کا شرعی حکم کیا ہے ؟ کہیں یہ بدعت تو نہیں؟ قرآن وسنت سے وضاحت فرمائی۔ (امام مسجد مبارک اہل حدیث، لاری اڈا چونیاں) (۱۲ / دسمبر ۲۰۰۳ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآنِ مجید یا بخاری شریف وغیرہ کے اختتام پر وعظ و نصیحت کا اہتمام محض یاددہانی، نصیحت اور اصلاح کی خاطر ہتا ہے کہ جن عظیم کتابوں کوختم کیا گیا ہے عملی زندگی کو بھی ان کی تعلیمات کی روشنی میں ڈھالنے کی سعی کرنی چاہیے۔ حضرت انس سے یہ بات ثابت ہے کہ قرآن مجید کے ختم کے موقع پر اپنے اہل و عیال کو اکٹھا کرکے وہ دعا کرتے تھے لیکن اس بارے میں نبی اکرمﷺ سے کوئی شئے ثابت نہیں۔ اور اسی طرح بعض تفاسیر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ  سے بھی منقول ہے کہ ’’سورہ بقرہ‘‘ ختم کرنے پر انھوں نے دس اونٹ ذبح کیے اس سے معلوم ہوا ایسے مواقع پر اگر کوئی شخص خوشی کا اظہار کرے تو اسی میں کوئی حرج نہیں۔

تاہم اس کو لازم نہیں کرلینا چاہیے اور نہ لازم سمجھناہی چاہیے جس طرح کہ بعض جگہ لوگوں کی عادت ہے، وہ ان امور کے اہتمام کو ضروری خیال کرتے ہیں۔ جہاں تک عالم پر قراء ت کا تعلق ہے سو یہ بات واضح طور پر قصہ ضمام بن ثعلبہ سے ثابت ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’وَاحْتَجَّ بَعْضُهُمْ فِی القِرَاءَةِ عَلَی العَالِمِ " بِحَدِیثِ ضِمَامِ بْنِ ثَعْلَبَةَ: قَالَ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: آللَّهُ أَمَرَكَ أَنْ تُصَلِّیَ الصَّلَوَاتِ قَالَ: نَعَمْ قَالَ: فَهَذِهِ قِرَائَةٌ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَ ضِمَامٌ قَوْمَهُ بِذَلِكَ فَأَجَازُوهُ‘(صحیح البخاری،بَابُ مَا جَاء َ فِی العِلْمِ. وَقَوْلِهِ تَعَالَی ﴿وَقُلْ رَبِّ زِدْنِی عِلْمًا﴾(طه:۱۱۴)

مذکورہ دلائل کی روشنی میں عمل ہذا کا جواز معلوم ہوتا ہے لہٰذا اسے بدعت قرار دینا درست نہیں۔

     ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،تلاوةِ قرآن:صفحہ:547

محدث فتویٰ

تبصرے