سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(302) کیا امام جماعت کراتے وقت دیکھ کر پڑھ سکتا ہے؟

  • 2587
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 3004

سوال

(302) کیا امام جماعت کراتے وقت دیکھ کر پڑھ سکتا ہے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 کیا امام جماعت کراتے وقت قرآن مجید دیکھ کر پڑھ سکتا ہے؟ جواب میں حوالہ جات ضروردرج فرمائیں۔
میں نے بخاری شریف میں دیکھا ہے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اپنے غلام ذکوان کے پیچھے (جو کہ قرآن مجید دیکھ کر پڑھتا تھا) نماز ادا کی ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ’’باب امامۃ العبد والمولیٰ‘‘ اس کو درج کیاہے۔ الفاظ یہ ہیں۔
کانت عائشة یَؤُمُّھا عبدھا ذکوان من المصحف (الحدیث)
نصر الباری ترجمہ صحیح بخاری کے حاشیہ پرمولانا عبد الواحد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ نمازی قرآن مجید دیکھ کر قرأت پڑھے تو جائز ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ ابو داؤد، کتاب المصحف میں اس بات کو موصولا لایا ہے۔ عرض یہ ہے کہ اگر سنن ابی داؤد میں یہ حدیث ہو تو باب اور صفحہ سے آگاہ فرمائیں تاکہ دیکھنے میں آسانی ہو۔
مجھے یہاں کے لوگوں سے معلوم ہوا ہے کہ مولانا ابو سعید محمد (ﷺ) حسین مرحوم تراویح کی جماعت کراتے وقت جب قرأت بھول جاتے تو قرآن مجید سے دیکھ لیتے تھے۔ مجھے معلوم نہیں کہ یہ بات کہاں تک درست ہے؟ لیکن جب میں نے اس بات کی تحقیق مولوی صاحب کی صاحبزادی سے کی تو معلوم ہوا کہ تہجد کے وقت وہ نوافل پڑھتے وقت قرآن مجید دیکھ کر پڑھا کرتے تھے۔ میں نے صحیح بخاری کی مندرجہ بالا حدیث کو مدنظر رکھ کر نماز تراویح میں قرآن مجید دیکھ کر پڑھانا شروع کیا تو لوگوں میں چرچا ہوا کہ ایسا کیوں کیا جاتا ہے؟ میں نے جواب دیا کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کا عمل مجھے کتنا محبوب ہے۔
آپ چونکہ بفضل خدا محدث ہیں لہٰذا مجھے اچھی طرح حوالہ جات بھیجیں۔ میں جانتا ہوں کہ یہ فعل نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نہیں کیونکہ سید الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تو حافظ قرآن تھے آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن مجید دیکھ کر پڑھنے کی ضرورت نہ تھی۔ البتہ ام المومنین جو امت کی مسلمہ علامہ فہامہ تھیں۔ یہ ان کا فعل ہے جس کو میں برا نہیں کہہ سکتا۔
اس مسئلہ میں اگر کسی کتاب میں کسی امام کا قول درج ہو تو لکھ بھیجیں۔ میں آپ کا بہت ممنون ہوں گا۔


 

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بخاری شریف کے حوالہ سے جو روایت آپ نے ذکر کی ہے وہ سنن ابی داؤد جو صحاح ستہ سے ہے، اس میں نہیں بلکہ کتاب المصاحف میں ہے جو سنن کے علاوہ ہے۔ نیز یہ روایت مسند امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ مصنف عبد الرزاق اور مصنف ابن ابی شیبہ میں بھی ہے۔  (ملاحظہ ہو فتح الباری جز ۳ ص۳۸۷ و منتقی مع نیل الاوطار جلد نمبر۳ ص ۴۰)
اس کے علاوہ قیام اللیل کے ص۹۷ میں امام محمد بن نصر مروزی نے بھی یہ روایت ذکر کی ہے اور اس کے علاوہ اور روایتیں بھی ذکر کی ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔
۱۔     سئل ابن شھاب عن الرجل یوم الناس فی المصحف قال مازا الوا یفعلون ذلك منذ کان الاسلام کان خیارنا یقرؤن فی المصاحف
’’ابن شہاب زہری تابعی سے سوال ہوا کہ قرآن مجید میں دیکھ کر امامت کا کیا حکم ہے؟ فرمایا ہمیشہ علماء جب سے اسلام ہوا قرآن مجید دیکھ کر امامت کراتے رہے۔ جو ہمارے بہتر تھے وہ قرآن مجید کر امامت کراتے۔‘‘
۲۔     ابراھیم بن سعد عن ابیہ انہ کان یامرہ ان یقوم باھلہ فی رمضان ویامرہ ان یقرأ لھم فی المصحف ویفول اسمعتی صوتک
’’ابراہیم بن سعداپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ وہ اس کو حکم دیتے کہ اپنے اہل کو لے کر ماہ رمضان میں قیام کرے اور حکم دیتے کہ قرآن مجید کو دیکھ کر پڑھے اور فرماتے کہ اتنا بلند آواز سے پڑھے کہ مجھے تیری آواز سنائی دے۔‘‘
۳۔    قتادہ عن سعید بن المسیب فی الذی یقوم فی رمضان ان کان معہ ما یقرأبہ فی لیلة والا فلیقرأ من المصحف فقال الحسن لیقرأ بما معہ ویرددہ ولا یقرأ من المصحف کما تفعل الیہود قال قتادہ و قول سعید اعجب الی
’’قتادہ سعید بن مسیب سے روایت کرتے ہیں جو شخص رمضان میں قیام کرے اگر اس کو اتنا قرآن مجید یاد ہو کہ ایک رات کے لیے کافی ہو تو بہتر ۔ ورنہ قرآن مجید کو دیکھ کر پڑھ لے حسن بصری نے کہا جو کچھ تھوڑا بہت یاد ہو اس کو بار بار پڑھا  جائے اور یہود کی طرح دیکھ کر قرآن مجید نہ پڑھے۔ قتادہ کہتے ہیں کہ میرے نزدیک سعید بن مسیب کا قول زیادہ پسندیدہ ہے۔‘‘
۴۔     ایوب عن محمد۔ انہ کان لا یری باسًا ان یؤم الرجل القوم فی التطوع یقرأ فی المصحف
’’یعنی ایوب محمد بن سیرین سے روایت کرتے ہیں کہ وہ نوافل میں قرآن مجید دیکھ کر پڑھنے میں کوئی ہرج نہیں سمجھتے تھے۔‘‘
۵۔     وقال عطاء فی الرجل یؤم فی رمضان من المصحف لا باس بہٖ
’’عطاء کہتے ہیں قرآن مجید میں دیکھ کر امامت کرانے میں کوئی ہرج نہیں۔‘‘
۶۔     وقل یحیی بن سعید الانصاری لااری بالقرأة من المصحف فی رمضان باس یرید القیام
’’یعنی یحییٰ بن سعید انصاری کہتے ہیں کہ رمضان میں قیام کی حالت میں قرآن مجید دیکھ کر پڑھنے میں میں کوئی ہرج نہیں سمجھتا۔‘‘
۷۔     ابن وھب یسئل مالك عن اھل قریة لیس احد منھم جامعا للقراٰن اثرٰی ان یجعلوا مصحفا یقرأ لھم رجل منھم فیہ فقال لا باس بہ فقیل لہ فالرجل الذی قد جمع القراٰن اثری ان یصلی فی المسجد خلف ھذا الذی یقوم بھم فی المصحف او یصلی فی بیتہٖ فقال لا یصل فی بیتہٖ
’’یعنی ابن وہب کہتے ہیں امام مالک سے سوال ہوا کہ ایک گائوں میں کوئی حافظ قرآن نہیں، کیا آپ کے نزدیک درست ہے کہ وہ قرآن مجید آگے رکھیں اور ان میں سے ایک قرآن مجید دیکھ کر امامت کرائے۔ فرمایا: کوئی ہرج نہیں۔ پھر کہا گیا حافظ، قرآن میں دیکھ کر پڑھنے والے کی اقتداء کرے یا گھر میں نماز پڑھے۔ فرمایا گھر میں نماز پڑھے۔‘‘
۸۔     عن احمد فی رجل یؤمن فی رمضان فی المصحف فرخص فیہ فقیل لہٗ یؤمن القریضة قال ویکون ھذا
’’امام احمد سے روایت ہے کہ کوئی شخص رمضان میں قرآن مجید دیکھ کر امامت کرا لے تو رخصت ہے کہا گیا کہ فرضوں میں بھی امامت کرا سکتا ہے فرمایا: فرضوں میں یہ ہوتا ہے یعنی فرضوں میں لمبے قیام کی کیا ضرورت ہے۔ ایک آدھ سورۃ ہی کافی ہے۔‘‘
۹۔     وعنہ ایضا وقد شئل ھل یؤم فی المصحف فی رمضان قال میا یعجبنی الا ان یضطرال ذالک وبہ قال اسحاق
’’یعنی امام احمد سے سوال ہوا کہ کیا قرآن مجید دیکھ کر امامت کرائے۔ فرمایا: مجھے پسند نہیں مگر غیر ضرورت کے لیے جائز ہے اور امام اسحاق کا بھی یہی مذہب ہے۔‘‘
۱۔    قیام اللیل میں یہ روایات قرآن مجید دیکھ کر امامت کرانے کے متعلق ذکر کی گئی ہیں۔ اس  کے بعد بعض تابعین وغیرہ سے کراہت نقل کی ہے۔ جن سے ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ذکر کیا گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں علماء قرآن سے دیکھ کر امامت کرانے کو مکروہ سمجھتے تھے۔ کیونکہ اس میں یہود سے مشابہت ہے۔
۲۔    سلیمان بن حنظلہ رحمۃ اللہ علیہ ایک قوم کے پا س سے گذرے ایک شخص قرآن مجید سرپائی پر رکھ کر رمضان میں ان کی امامت کرا رہا تھا۔ سلیمان بن حنظلہ رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن مجید پرے رکھ دیا۔
۳۔     عامر شعبی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس بات کو مکروہ سمجھا کہ نماز کی حالت میں امام قرآن مجید کو دیکھ کر پڑھے۔
۴۔    سفیان رحمۃ اللہ علیہ نے کہا۔ رمضان ہو یا غیر رمضان۔ قرآن مجید دیکھ کر امامت مکروہ ہے اس میں کتاب کی مشابہت ہے۔
۵۔    حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ جو قرآن مجید دیکھ کر امامت کرائے اس کی نماز فاسد ہے اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے شاگردوں نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی مخالفت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ نماز ہو جائے گی ہاں یہ فعل مکروہ ہے کیونکہ اس میں اہل کتاب کی مشابہت ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے قول کی بعض نے یہ وجہ بیان کی ہے کہ قرآن مجید میں دیکھنا یہ عمل کثیر ہے اور عمل کثیر سے نماز فاسد ہو جاتی ہے۔ حالانکہ یہ دیکھنا قرأت کی خاطر ہے اور قرأت نماز میں داخل ہے اور دیکھنا بالطبع ہے جیسے اور اشیاء پر نظر پڑتی ہے۔ پس جو شخص اس قوم کا ہلکا فعل کرے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ فعل کے مشابہ ہو۔ یا اس کے قریب ہو۔ اس سے نماز فاسد نہیں ہو گی۔ اگر حد سے گزر جائے تو نما ز فاسد ہو جائے گی۔ اور یہ دیکھ کر پڑھنا ثابت شدہ فعل کے قریب ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ علم دار لوئی میںنماز پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال لوئی کی طرف چلا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ہی میں اتار دی۔ چونکہ یہ فعل نماز ہی کی خاطر تھا جس سے نماز ا بڑا جز خشوع قائم رکھنا مقصود تھا۔ اس لیے اس سے نماز میں کوئی خلل نہ آیا۔ پس امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا نماز کو فاسد کہنا اس کی کوئی وجہ نہیں۔ جس نے مکروہ جانا اس نے صرف اہل کتاب کی مشابہت سے مکروہ جانا ہے۔
یہ امام محمد بن مرزوی کی تحقیق کا خلاصہ ہے انہوں نے دونوں فریق کے اقوال سامنے رکھ دیے ہیں اور امام ابو حنفیہ رحمۃ اللہ علیہ کے قول میں چوکہ کچھ زیادہ بُعد تھا اس لیے اس کی تردید کر دی۔ یہود کی مشابہت کی وجہ سے مکروہ کہنا بھی کمزور ہے۔ کیونکہ یہود کی مشابہت سے نہیں اس بارے میں صراحۃً نہیں آئی صرف ایک عام اصول:
 من تشبہٗ بقوم فھو منھم۔ کے تحت داخل کر کے اس سے نہی کی جاتی ہے۔ مگر جب اس بات کو دیکھا جاتا ہے کہ نماز کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی تفصیل کی ہے کہ کسی حکم کی اتنی تفصیل نہیں کی۔ ذرا ذرا سی بات بتا دی۔ جس بات میں یہود وغیرہ کی مخالفت کی ضرورت تھی، وہ بھی بتا دی مثلا:
سدل کرنا۔ یعنی سر پر یا کندھوں پر چادر ڈال کر اس کی دونوں طرف لٹکی ہوئی چھوڑ دینا۔
نماز میں پہلو پر ہاتھ رکھنا
جوتوں میں نماز پڑھنا وغیرہ
تو اگر قرآن مجید کو دیکھ کر پڑھنے میں بھی مخالفت شارع (ﷺ) کو مقصود ہوتی تو شارع صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس کے لیے بھی ہدایت ہوتی۔ اس سے خیال ہوتا ہے کہ قرآن مجید دیکھ کر پڑھنا اس عام اصول کے تحت داخل نہیں خاص کر نوافل میں۔ خاص کر ضرورت کے وقت۔ چونکہ یہود کا یہ فعل عام ہے جس کی وجہ سے ان میں حفظ تورات کا رواج نہیں۔پس جب یہ اس عام اصول کے تحت داخل نہ ہوا تو اس وجہ سے اس کو مکروہ کہنا بھی ٹھیک نہ ہوا۔
اسی لیے قتادہ نے باوجود حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے فعل یہود ہونا نقل کر کے یہ فیصلہ کیا ہے کہ میرے نزدیک سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ کا قول زیادہ پسند ہے۔
اس کے علاوہ جواز کے قائلین میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ ہیں جو جلیل القدر صحابیہ رضی اللہ عنہ ہیں اور مکروہ کہنے والے صرف تابعین وغیرہ ہیں۔ پس اس وجہ سے بھی ترجیح جواز ہی کو ہے۔
مولوی محمد حسین مرحوم کا مندرجہ سوال مجھے پہنچا ہے غالباً وہ اسی بنا پر ہو گا۔
پھر مشکوٰۃ باب الترجل فصل اول ص ۳۷۲ میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
’’جس بات میں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی حکم نہ ہوتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں اہل کتاب کی موافقت درست رکھے۔‘‘
پس اب اپنے طور پر اہل کتاب کی مخالفت تجویز کرنا کیونکر درست ہو گا۔
پس ترجیح اس کی ہے کہ دیکھ کر پڑھنے میں کوئی ہرج نہیں۔ (عبد اللہ امر تسری روپڑی، یکم دسمبر ۱۹۳۶، تنظیم اہل حدیث جلد نمبر۲۲ شمارہ نمبر۳۴)

فتاویٰ علمائے حدیث

کتاب الصلاۃجلد 1 ص231۔237
محدث فتویٰ

تبصرے