السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
محفل قراء ت قرآن میں جب قاری صاحب تلاوت کرتے ہیں تو سامعین حضرات اونچی آواز سے اللہ اللہ کہہ کر قاری صاحب کو داد دیتے ہیں۔ قرآن و سنت کی رُو سے اس کی کیا حیثیت ہے اور کہاں تک اس کی گنجائش ہے؟ (۲) کیا قراء کرام کا اختتام تلاوت پر ’’صدق اللہ العظیم‘‘ قسم کے الفاظ کہنا جائز ہے ؟ (۳) اسی طرح جب قاری صاحب آیاتِ عذاب یا آیاتِ انعام تلاوت کرتے ہیں تو کیا سامعین اس کا جواب دے سکتے ہیں؟ اگر دے سکتے ہیں تو سرًا ہونا چاہیے یا جہراً ؟ نیز حالت ِ نماز میں اس کا کیا حکم ہے؟ ( محمد اسلم صدیق، لاہور) (۵۔ اکتوبر۲۰۰۱ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
تلاوت کے دوران اللہ ، اللہ کہہ کر داد دینے کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں ،بلکہ عمل ہذا نص قرآنی ﴿وَ اِذَا قُرِءَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ﴾ (الاعراف:۲۰۴)
’’اور جب قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے سنا کرو اور خاموش رہا کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘ کے خلاف ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو معانی و مفاہیم سے ناواقفیت کی بناء پر الفاظِ قرآن سے لذت و سرور حاصل ہی نہیں ہوئے بلکہ ان کی لطف اندوزی اور قاری کی نغمہ سرائی پر موقوف ہے، اس کی حسین و جمیل آواز پر مر مٹنے والے ہیں اگرچہ اچھی آواز بھی مطلوب امر ہے۔ لیکن امام مناوی فرماتے ہیں کہ قرآنی حروف کی ادائیگی میں ان کی حدود سے تجاوز کرنا حرام ہے۔ عامۃ الناس کی دلچسپی کا حال یہ ہے کہ اگر کوئی سادہ آواز میں قرآن پڑھتا ہے۔ تو تلاوت سننے کے لیے تیار نہیں ہوتے بلکہ نفرت کا اظہار کرتے ہیں جب کہ قرآن میں مومنوں کے اوصاف یوں بیان ہوئے ہیں:
﴿إِنَّمَا المُؤمِنونَ الَّذينَ إِذا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَت قُلوبُهُم وَإِذا تُلِيَت عَلَيهِم ءايـٰتُهُ زادَتهُم إيمـٰنًا ..﴿٢﴾... سورة الأنفال
’’مومن تو وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب انھیں اس کی آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو ان کا ایمان اور بڑھ جاتا ہے۔‘‘
نیز فرمایا:
﴿ تَقشَعِرُّ مِنهُ جُلودُ الَّذينَ يَخشَونَ رَبَّهُم ثُمَّ تَلينُ جُلودُهُم وَقُلوبُهُم إِلىٰ ذِكرِ اللَّهِ ذٰلِكَ هُدَى اللَّهِ يَهدى بِهِ مَن يَشاءُ وَمَن يُضلِلِ اللَّهُ فَما لَهُ مِن هادٍ ﴿٢٣﴾... سورة الزمر
’’جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کے بدن کے تو اس(قرآن) سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں پھر ان کے بدن اور دل نرم( ہو کر) اللہ کی یاد کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں، یہی اللہ کی ہدایت ہے وہ اس سے جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جس کو اللہ گمراہ کرے اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے۔‘‘
صحیح حدیث میں موجود ہے کہ ایک دفعہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ پر تلاوتِ قرآن پیش کی۔ کہا:
’قَالَ أَمْسِكْ۔ فَإِذَا عَیْنَاهُ تَذْرِفَانِ۔ ‘صحیح البخاری،باب ﴿فَکَیْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِیدٍ…الخ﴾ ،رقم:۴۵۸۳
’’میں نے نگاہ اٹھا کر دیکھا تو آپﷺ کی دونوں آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ ‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ تلاوتِ قرآن کرنے یا سننے کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے اثرات انسان کے دل و دماغ پر ظاہر ہوں نہ کہ اللہ، اللہ ، کمان کمان، یا استاذ ھیہ ھیہ کہہ کر خانہ پُری کی جائے اس سے اجتناب انتہائی ضروری ہے۔ (السنن والمبتدعات،ص:۲۲۰/۲۱۹)
(۲) قراء ت کے اختتام پر ’’صدق اللہ العظیم‘‘ کہنا کتاب و سنت سے ثابت نہیں۔’’صحیح بخاری‘‘وغیرہ میں حدیث ہے:
’ مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا هٰذَا مَا لَیْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ ‘(صحیح البخاری،بَابُ إِذَا اصْطَلَحُوا عَلَی صُلْحِ جَوْرٍ فَالصُّلْحُ مَرْدُودٌ،رقم:۲۶۹۷)
’’ یعنی جو دین میں اضافہ کرے وہ مردود ہے۔‘‘
متعدد صحابہ کرام کی تلاوت کے تذکرے احادیث کی کتابوں میں مرقوم ہیں لیکن کسی ایک سے بھی یہ کلمات ثابت نہیں ہو کے۔ اگر کوئی کہے کہ قرآن میں ہے: ﴿قُلْ صَدَقَ اللّٰهُ﴾(اٰل عمرٰن:۹۵) تو جواب اس کا یہ ہے کہ اللہ کا فرمان اپنی جگہ برحق ہے لیکن اس میں یہ کہاں ہے کہ جب تم تلاوت ختم کرو تو یہ کہو ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی تلاوت سن کر آپﷺ نے فرمایا:
(’حَسْبُك‘صحیح البخاری،بَابُ قَوْلِ المُقْرِءِ لِلْقَارِئِ حَسْبُكَ،رقم: ۵۰۵۰)
’’تیرے لیے یہ کافی ہے۔‘‘
یہ نہیں فرمایا: ’صَدَقَ اللّٰہُ الْعَظِیْم‘ اور نہ ابن مسعود نے یہ الفاظ کہے: لہٰذا اس سے بھی احتراز از بس ضروری ہے۔
(۳) سامع یا مقتدی کا قاری کی تلاوت میں بعض آیات کا جواب دینا سنت صحیحہ سے ثابت نہیں ہے ، ہاں البتہ قاری یا امام کے لیے ثابت ہے ۔
چنانچہ ’’صحیح مسلم ‘‘ میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ رسولِ اکرمﷺ سے رات کی نماز کی کیفیت نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپﷺ جب کسی ایسی آیت سے گزرتے جس میں تسبیح کا ذکر ہوتا تو تسبیح کرتے اور جب سوال(والی آیت) سے گزرتے تو سوال کرتے اور جب تعوذ (والی آیت) سے گزرتے تو پناہ پکڑتے۔
عمیربن سعید سے روایت ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے نمازِ جمعہ میں ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَی﴾ پڑھنے پر ’سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی‘ کہا۔ (السنن الکبرٰی للبیهقی،بَابُ الْوُقُوفِ عِنْدَ آیَةِ …الخ،رقم:۳۶۹۴ (۳۱۱/۲)، مصنف عبدالرزاق: ۴۵۱/۲)اس اثر کی سند صحیح ہے۔
اسی طرح حضرت علی سے بھی اس موقع پر یہی کلمات کہنا بسند حسن ثابت ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: القول المقبول فی تخریج و تعلیق صلوٰۃ الرسولﷺاس موضوع پر عرصہ قبل ماہ نامہ ’’محدث‘‘ میں میرا ایک تفصیلی فتویٰ جواب در جواب کی صورت میں شائع ہو چکا ہے امید ہے کہ اربابِ ذوق کے لیے وہ کافی مفید ہو گا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب