سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(734) قصۂ قرطاس کی حقیقت کیا ہے ؟

  • 25849
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1332

سوال

(734) قصۂ قرطاس کی حقیقت کیا ہے ؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 اہل تشیع بخاری کی اس حدیث کو عموماً اپنے حق میں پیش کرتے ہیں کہ جس میں آپﷺ کی بیماری کے دوران یہ فرمانا کہ میرے پاس قلم دوات لے آؤ کہ میں آپ کو لکھ دوں مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے فرمایا کہ ہمیں قرآن کافی ہے۔ آپﷺ تو ہذیان میں ایسا کہہ رہے ہیں۔ا س سے اہل تشیع درج ذیل مسائل ثابت کرتے ہیں۔(۱) حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے آپ کا کہنا نہ مان کر گستاخی کی۔ (۲) حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے آپﷺ کو ہذیان میں مبتلا کہہ کر گستاخی کی۔ آپﷺ کا ہذیان میں ہونا شان کے خلاف ہے۔ (۳) آپﷺ اپنے بعد خلافت کے بارے میں لکھنا چاہتے تھے۔( ۴) آپﷺ تو امّی تھے آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ لاؤ میں لکھ دوں؟ لہٰذا حدیث عقل و نقل کے خلاف ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے بطورِ شفقت صرف آپﷺ پر بیماری کے غلبہ کی وجہ سے روکا تھا۔ لہٰذا یہ گستاخی نہیں۔ علی سبیل التنزل اگر اس کو گستاخی تسلیم کر لیا جائے تو اس میں عمر رضی اللہ عنہ  منفرد نہیں تھے بلکہ وہاں کئی ایک صحابہ و اہل بیت موجود تھے۔ وہ سب اس میں شریک ہوں گے۔ نیز تنہا عمر رضی اللہ عنہ  پر الزام لگانا بے انصافی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ  نے کیا نہ تحریر کروایا۔ جب کہ ان کو قربِ دامادی حاصل تھا۔ فتح الباری وغیرہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ  کا بیان ہے۔ مجھے نبیﷺ نے حکم دیا تھا کہ کوئی کاغذ لاؤ جو لکھا جائے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کے روکنے سے آپﷺ کا رُک جانا منصب ِ رسالت کے منافی ہے۔ جب کہ آپ پر تبلیغ فرض ہے۔

اس واقعہ کے بعد چند روز تک آپ زندہ رہے اگر کوئی ضروری تحریر ہوتی تو ضرور لکھوا دیتے۔

 (۲) پہلی بات یہ ہے کہ یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کا مقولہ نہیں۔ حدیث کی کسی کتاب میں اس امر کی تصریح موجود نہیں۔ دوسرا ہجر بمعنی ہذیان لینا غیرمتبادر ہے۔ یہ لفظ جدائی کے معنی میں کثیر الاستعمال ہے۔ چنانچہ قرآن میں ہے:﴿وَاهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِیْلًا﴾(المزمل:۱۰)

دوسری آیت میں ہے: ﴿وَاهْجُرُوْهُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ﴾(النساء:۳۴)

تیسری بات یہ ہے ہجر کے بعد استفھموہ کا لفظ موجود ہے جس کے معنی یہ ہیں۔ آپ سے پوچھو تو سہی کیا ارشاد فرماتے ہیں اگر ہجر کے معنی ہذیات کے لیے جائیں تو اِسْتَفْھَمُوْہ سے بے ربط اور بے کار ہو جاتا ہے جس کو ہذیان ہو گیا ۔ اس سے پوچھنا خلافِ عقل ہے۔ ثابت ہوا هَجَریَهْجُرُ کے معنی جدائی کے ہیں نہ کہ ہذیان( فیصلہ حدیث قرطاس،ص:۶۹)

(۳) قصۂ قرطاس جمعرات کو پیش آیا۔ بروز سوموار آپﷺ کا انتقال ہوا۔ اس اثناء میں اگر خلافت کے بارے میں کوئی ضروری تحریر ہوتی تو آپ لکھوا سکتے تھے۔ یا فاتح خیبر حضرت علی رضی اللہ عنہ  جراء ت مندانہ اقدام کرکے لکھوا لیتے۔ بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ  کے بعد ان کے صاحبزادے حضرت حسن رضی اللہ عنہ  امت کی مصلحت کے پیش نظر رضاکارانہ طور پر امورِ خلافت سے مستعفی ہو گئے تھے۔ یہ اس امر کی واضح دلیل ہے کہ استحقاقِ خلافت اہل بیت کے لیے متعین نہیں۔

(۴) کتابت کی نسبت آپ کی طرف بلحاظ آمر کے تھے۔ قصۂ صلح حدیبیہ میں بھی ایسے الفاظ موجود ہیں۔ وہ نسبت بھی حکم کے اعتبار سے ہے جب کہ فی الواقع کاتب حضرت علی رضی اللہ عنہ  تھے۔اسی طرح معاملہ یہاں بھی سمجھ لینا چاہیے۔ اس میں ایسی کوئی شے نہیں جو عقل و نقل کے منافی ہو۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب اللباس:صفحہ:519

محدث فتویٰ

تبصرے