السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص’’اسلم‘‘ اپنے سگے بھائی ’’اکرم‘‘ کی بیوی سے ناجائز تعلقات استوار کرکے ’’اکرم‘‘ سے اس کی بیوی کو طلاق دلا کر خود اس سے کورٹ میرج کرلیتا ہے۔ بعد میں ’’اکرم‘‘ دوسری شادی کرلیتا ہے۔ کافی عرصہ بعد’’اسلم‘‘ ، ’’اکرم‘‘کے گھر پھر آناجانا شروع کرلیتا اور اکرم کی دوسری بیوی ے بھی ناجائز تعلقات قائم کرلیتا ہے جس پر مضبوط شواہد موجود ہوں اور ’’اکرم‘‘ اس معاملے میں دیوثیت کاکردار ادا کر رہا ہو۔’’اسلم‘‘ کی اولاد دینی کاموں میں مصروف ہو اور اسلم کے اس غلط کام کی وجہ سے انھیں جگہ جگہ رسوائی ہو۔ اولاد کے منع کرنے پر اسلم سے قطع تعلقات اور قطع کلامی ہو رہی ہو۔ اولاد کو ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہ ہو۔ ان حالات میں اسلم کی اولاد اپنے والد سے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کیسے کرے؟ اور ﴿وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الاَْقْرَبِیْنَ﴾ پر کیسے عمل ہو؟ کیا اولاد علاقہ کی بااثر شخصیات سے مدد طلب کر سکتی ہے؟ اس سے والد کی مزید رسوائی کا بھی اندیشہ ہو سکتا ہے ؟ اور ناراضگی میں اضافہ بھی۔ والسلام (اکرام اللہ۔سانگھڑ) (۳۱ جولائی ۲۰۰۰ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صحیح احادیث میں برائی سے روکنے کے تین درجات بیان ہوئے ہیں۔
(۱) برائی کو ہاتھ سے روکے۔
(۲) اس کی استطاعت نہ ہو تو زبان سے روکے۔
(۳) اگر یہ کام بھی نہ کر سکے تو برائی کو دل سے برا سمجھے۔ فوائد و ثمرات کے اعتبار سے یہ ایمان کا کم ترین درجہ ہے۔
اس حدیث کو نصب العین بنا کر والد صاحب کی اصلاح کے لیے کوشاں رہیں۔ امید ہے کہ اس صورت میں آپ عدالتِ الٰہی میں بری الذمہ قرار پائیں گے۔ شرعی حدود سے تجاوز کرنے کی کوشش نہ کریں۔اس کام کے لیے باعزت طریقے سے خیر خواہ شخصیات کا تعاون حاصل کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ اللہ رب العزت ہم سب کو صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق بخشے۔ آمین
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب