سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(297) مسجد کی انتظامیہ میں سے چند لوگ امام کو ناپسند کریں تو اس صورت میں کیا کیا جائے؟

  • 2582
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1983

سوال

(297) مسجد کی انتظامیہ میں سے چند لوگ امام کو ناپسند کریں تو اس صورت میں کیا کیا جائے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ زید چھ سال سے ایک مسجد میں تراویح میں قرآن مجید سنارہا تھا الحمد اللہ زید نماز روزہ کا پابند تھا قرآن مجید بھی ٹھیک طرح پڑھتا ہے۔ سامعین اس سے خوش ہیں لیکن مسجد کے ایک متولی صاحب کسی ذاتی رنجش کی وجہ سے چاہتے ہیں کہ زید آئندہ سے مسجد میں قرآن مجید نہ سنائے بلکہ کوئی دوسرا سنائے کیا شرعاً ان کو زید کو روکنے کا حق ہے۔ اگر متولی جبراً زید کو روکے تو عند اللہ اس کو پکڑ ہے یا نہیں؟


 

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جبکہ زید مذکور صوم و صلوٰۃ کا پابند اور حافظ قرآن اور قاری و نیک سیرت اور شرح ہے اور عرصہ سے یہ نماز پڑھاتا ہے اور آج تک اس کی امامت کے بارے کسی نے اعتراض نہیں کیا بلکہ تمام نمازی اس کے تراویح پڑھانے سے خوش ہیں اور سوائے ایک کے تمام متولی اور نگران مسجد راضی ہیں تو یہی زید مذکور تراویح پڑھانے کا مستحق ہے اور جو ذاتی عناد کی وجہ سے اسے نماز تراویح پڑھانے سے اور آیت کریمہ
﴿وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللَّـهِ أَن يُذْكَرَ‌ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَىٰ فِي خَرَ‌ابِهَا ۚ
میں داخل ہیں یعنی اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہیں جو خدا کی مسجدوں میں خدا کا ذکر کرنے سے روکے اور ان کی بربادی کے درپے ہو۔
علامہ شوکانی تفسیر فتح القدیر میں اس آیت کریمہ کی تفسیر یہ فرماتے ہیں:
والمراد منع المسٰجد اَنْ یُّذْکَرَ فِیْھَا اسْمُ اللّٰہِ مَنَعَ مَنْ یَاتِیْ اِلَیْھَا لِلصَّلوٰة وَالتَّلَاَوَة وَالَذِکْرِ تَعْلِیْمِہٖ الخ
’’یعنی اس سے مراد یہ ہے کہ جو شخص مسجدوں میں نماز پڑھنے سے اور قرآن مجید ی تلاوت سے اور ذکر الٰہی سے اور قرآن مجید کے پڑھنے پڑھانے سے لوگوں کو روکتا ہے وہ بڑا ہی ظالم ہے۔‘‘
لہٰذا اس آیت کریمہ کی روشنی میں متولی مذکور کو زید کو نماز تراویح پڑھانے سے روکنے کا شرعاً حق نہیں ہے اور اگر روکے تو آیت مذکور میں داخل ہو گا۔ واللہ اعلم بالصواب (از مولانا عبد السلام بستوی۔ ترجمان دہلی ۶ محرم الحرام ۱۳۸۰ ھ)

فتاویٰ علمائے حدیث

کتاب الصلاۃجلد 1 ص225۔226
محدث فتویٰ

تبصرے