سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(642) جبڑے کی ہڈی پر اُگے بالوں کا حکم

  • 25757
  • تاریخ اشاعت : 2024-11-02
  • مشاہدات : 551

سوال

(642) جبڑے کی ہڈی پر اُگے بالوں کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جبڑے کی ہڈی سے پَرے جو بال اُگیں ان کا کیا حکم ہے۔ آنکھوں کی نچلی ہڈی کے بال مونڈنا جائز ہے؟(ایک سائل کریم پارک لاہور) (۱۳  اکتوبر ۱۹۹۵ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 یہ بھی ڈاڑھی میں شامل ہیں ان کو بھی لینا ناجائز ہے کیونکہ آپﷺ نے نماص(چہرے کے بال اکھاڑنے) سے منع فرمایا ہے۔ (صحیح البخاری ، بَابُ المُتَنَمِّصَاتِ،رقم: ۵۹۳۹)

مقدارِ لحیہ: حافظ ثناء اللہ صاحب کے ایک فتویٰ پر تعاقب اور اس کا جواب:

تعاقب: ہفت روزہ الاعتصام لاہور مجریہ ۱۱ نومبر۱۹۹۴ء کے ص۸ پر احکام و مسائل کے تحت ’’ڈاڑھی کا شرعاً کیا حکم ہے ، ڈاڑھی کی مقدارِ شرعی کیا ہے؟ ‘‘ دو سوال مذکور ہیں جن کا جواب فضیلۃ الشیخ الحافظ ثناء اللہ مدنی نے تحریر فرمایا۔

’’ ڈاڑھی کو انبیاء علیہ السلام کی سنت قدیمہ بروایت’عَشْرٌ مِّنَ الْفِطْرَةِ اَیْ مِنْ سُنَّة الاَنْبِیَاءِ الَّذِیْنَ اَمَرَنَا اَنْ نَقْتَدِیْ بِهِمْ‘(الحدیث، نسائی،ص: ۲۳۷) اور وجوب، بصیغہ امر، ’وَاعْفُوْا اَوْفُوْا، اَرْخُوْا، وَفِّرُوْا ‘ ثابت کرنے کے بعد آپ نے مداہنت اختیار کی کہ

’’اگر کوئی شخص مٹھی سے زائد کٹا دے تو بعض آثار کی بناء پر گنجائش ہے۔ بالخصوص راوی حدیث ’اِعْفَائِ اللِّحْیَةَ‘ ابن عمر رضی اللہ عنہما  کے عمل سے اس نظریہ کو تقویت ملتی ہے۔‘‘

پھر جواب نمبر۲ میں ترک علی الحال کے بعد ارشاد فرمایا کہ:

’’مٹھی سے زائد سابقہ حوالوں کی بناء پر کٹوانی جائز ہے کٹوانے کی مرفوع روایت بھی بحوالہ ترمذی بیان کی جاتی ہے لیکن اس میں عمر بن ہارون راوی ضعیف ہے۔‘‘

اب غور طلب بات یہ ہے کہ کیا حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما  کا یہ فعل دائمی تھا جس کو حجت کے طور پر پیش کیا گیا ہے؟ چنانچہ’’صحیح بخاری‘‘میں ہے:

’ وَکَانَ ابْنُ عُمَرَ : إِذَا حَجَّ أَوِ اعْتَمَرَ قَبَضَ عَلَی لِحْیَتِهِ، فَمَا فَضَلَ أَخَذَهُ ۔‘ (صحیح البخاری،بَابُ تَقْلِیمِ الأَظْفَارِ،ڑقم: ۵۸۹۲(ج:۲،ص:۸۷۵)

اس عبارت سے یہ ظاہر ہے کہ حضرت عبد اللہ  رضی اللہ عنہ  کا یہ فعل دائمی نہ تھا بلکہ مخصوص بالحج والعمرۃ تھا۔ اب اس مخصوص اور مقید فعل سے عام استدلال کرنا کیونکر صحیح ہوگا؟نیز عون المعبود میں ہے کہ:

’ کَانُوا یُقَصِّرُونَ مِنَ اللِّحْیَۃِ فِی النُّسُکِ ۔‘

یہاں بھی نسک کی شرط ہے اس کے بغیر ڈاڑھی کترانا حرام ہے۔

علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ  کا فیصلہ:

علامہ عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ  ’’تحفۃ الاحوذی‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں کہ:

’ وَأَمَّا قَوْلُ مَنْ قَالَ إِنَّهُ إِذَا زَادَ عَلَی الْقَبْضَةِ یُؤْخَذُ الزائد واستدل بآثار ابن عُمَرَ وَعُمَرَ وَأَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمْ فَهُوَ ضَعِیفٌ لِأَنَّ أَحَادِیثَ الْإِعْفَاء ِ الْمَرْفُوعَةِ الصَّحِیحَةِ تَنْفِی هَذِهِ الْآثَارَ۔

فَهَذِهِ الْآثَارُ لَا تَصْلُحُ لِلِاسْتِدْلَالِ بِهَا مَعَ وُجُودِ هَذِهِ الْأَحَادِیثِ الْمَرْفُوعَةِ الصَّحِیحَةِ فَأَسْلَمُ الْأَقْوَالِ هُوَ قَوْلُ مَنْ قَالَ بِظَاهِرِ أَحَادِیثِ الْإِعْفَاء ِ وَکَرِهَ أَنْ یُؤْخَذَ شَیْء ٌ مِنْ طُولِ اللِّحْیَةِ وَعَرْضِهَا واللَّهُ تَعَالَی أَعْلَمُ ‘

’’ ڈاڑھی کو مٹھی سے زائد کٹوانے کے دعویدار جو حضرت عبد اللہ بن عمر، حضرت عمر اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہم  کے آثار سے استدلال کرتے ہیں وہ انتہائی کمزور ہے کیونکہ مرفوع صحیح احادیث کی موجودگی میں آثارِ صحابہ سے استدلال صحیح نہیں۔ احادیث مرفوعہ اعفاء اللحیۃ ان اقوال کی نفی کرتی ہے۔ پس سلامتی والا مذہب ان لوگوں کا ہے جو حدیث ِ اعفاء کے ظاہر کو لیتے ہوئے بڑھاتے ہیں اور اس کے طول و عرض سے ڈاڑھی کٹانا حرام سمجھتے ہیں۔‘‘

امام طحاوی رحمہ اللہ :

امام طحاوی رحمہ اللہ  نے ذکر کیا ہے:

’ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ قَطَعَ شَعْرَةً مِنْ لِحْیَتِهٖ لَا یُسْتَجَابَ دعَائَهُ وَ تَنْزِلُ عَلَیْهِ الرَّحْمَة، وَ لَا یَنْظُرُ اللّٰهُ اِلَیْهِ نَطْرَ رَحْمَةٍ تُسَمِّیْهِ  الْمَلَائِکَةُ مَلْعُوْنًا وَ هُوَ عِنْدَ اللّٰهِ بِمَنْزِلَةِ الْیَهُوْدِ وَالنَّصَارٰی ۔‘

’’رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے ڈاڑھی کا ایک بال بھی کاٹا اس کی دعا قبول نہ ہوگی، اس پر رحمت الٰہی کا نزول نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اس کی طرف نظرِ رحمت سے نہیں دیکھیں گے۔ فرشتے اس کا نام ملعوم رکھیں گے۔ اور وہ عند اللہ یہود و نصاریٰ کے قائم مقام ہوگا۔‘‘

جواب تعاقب (از حافظ ثناء اللہ مدنی صاحب):

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما  کے متعلق موطأ امام مالک کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں:

’ عَنْ مَالِكٍ عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ کَانَ إِذَا أَفْطَرَ مِنْ رَمَضَانَ، وَهُوَ یُرِیدُ الْحَجَّ، لَمْ یَأْخُذْ مِنْ رَأْسِهِ وَلَا مِنْ لِحْیَتِهِ شَیْئًا، حَتَّی یَحُجَّ ۔‘ (موطأ امام مالك،بَابُ التَّقْصِیرِ ،رقم:۱۸۶)

’’نافع سے روایت ہے کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب رمضان کے روزوں سے فارغ ہوتے اور حج کا قصد ہوتا تو سر اور ڈاڑھی کے بال نہ لیتے حتی کہ حج کرتے۔‘‘

مذکورہ الفاظ پر بار بار غور فرمائیں۔ یہ واضح طور پر دال ہیں کہ ما سوائے مخصوص ایام کے ان کا یہ فعل دائمی تھا۔‘‘

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

’ الَّذِی یظْهر أَن بن عُمَرَ کَانَ لَا یَخُصُّ هَذَا التَّخْصِیصَ بِالنُّسُکِ بَلْ کَانَ یَحْمِلُ الْأَمْرَ بِالْإِعْفَاءِ عَلَی غَیْرِ الْحَالَةِ الَّتِی تَتَشَوَّهُ فِیهَا الصُّورَةُ بِإِفْرَاطِ طُولِ شَعْرِ اللِّحْیَةِ أَوْ عَرْضِهِ ‘ فتح الباری: ۳۵۰/۱۰)

’’یعنی جو بات ظاہر ہے وہ یہ ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما  کا یہ فعل نسک کے ساتھ مخصوص نہیں تھا بلکہ وہ اعفاء اللحیۃ کا امر اس حالت پر محمول کرتے تھے کہ ڈاڑھی کے طول و عرض میں افراط کی وجہ سے شکل و صورت قبیح نہ ہونے پائے۔ ‘‘

نیز شیخنا مجتہد العصر محدث روپڑی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں: ’’ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما  کا فعل، سو اس سے مجھے اتنا تردد ہے اگر غیر حج عمرے میں ڈاڑھی کو چھیڑنا ناجائز ہوتا تو ناجائز کام حج اور عمرے میں کس طرح جائز ہو گیا؟ احرام سے نکلنے کے لیے وہی کام کیا جاتا ہے جو غیر احرام میں جائز ہو۔ خاص طور پر جب ظاہر الفاظ قرآن میں سرمنڈانے کا ذکر ہے اور احادیث میں اس کا ذکر ہے تو آیت کو عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما  نے ڈاڑھی کے کٹانے پر کس طرح چسپاں کرلیا۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ غیر حج عمرے میں وہ کٹانے کے قائل تھے۔ اس لیے حج عمرے میں سر کے علاوہ بقیہ حجامت(ناخن وغیرہ) کی طرح مٹھی سے زائد ڈاڑھی بھی کٹا لیتے۔ اور چونکہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما  حدیث اِعْفُوا اللُّحٰی (ڈاڑھیاں بڑھاؤ) کے راوی ہیں۔ اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ صحابی کا خیال ہے حدیث کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ شاید اس کو حدیث نہ پہنچی ہو۔ کیونکہ حدیث تو وہ خود روایت کررہے ہیں۔ یعنی رسول اللہﷺ سے ذرا سی بات میں خلاف برداشت نہیں کرتے تھے۔ یہاں تک کہ عادت کے طور پر آپﷺ سے کوئی فعل صادر ہوتا تو اس میں بھی موافقت کی کوشش کرتے۔

اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے ضرور نبی کریمﷺ سے سند لی ہے۔ ورنہ ڈاڑھیاں بڑھانے کی حدیث کے راوی ہو کر ایک ناجائز کام کا ارتکاب نہ کرتے۔ اس لیے اگر کوئی شخص مٹھی سے زائد کٹائے تو اس پر اعتراض نہ کرنا چاہیے۔ ہاں افضل یہی ہے کہ مٹھی سے زائد نہ کٹائی جائے۔ (جلد سوم،ص:۳۳۷۔۳۳۸)

علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ  کی رائے کا جواب محدث روپڑی رحمہ اللہ  کے کلام میں گزر چکا۔

امام طحاوی کی طرف منسوب حدیث کی بناء پر ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  اور ائمہ دین پر کیا فتوی چسپاں کریں گے جن کا عمل اس کے خلاف تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ اس روایت کی صحت محل نظر ہے۔ اور اعتبار کے لائق نہیں۔ اثبت العرش ثم انقش(۱۰ فروری ۱۹۹۵ء)

     ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب اللباس:صفحہ:471

محدث فتویٰ

تبصرے