السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
(۱) تنظیم سازی کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ تنظیم سازی کرنا عین اسلام کی خدمت ہے یا گناہ کبیرہ؟ یا بدعت ہے؟ واضح رہے کہ ایک ہی عقیدہ و نظریہ کے حامل قرآن و سنت کے پیروکاروں نے مختلف ناموں سے بے شمار تنظیمیں بنا ڈالی ہیں۔ ایک ہی قریہ و شہر میں کئی کئی تنظیمیںسرگرم عمل ہیں۔ لیکن متحد نہیں اور ایک امیر نہیں۔ بلکہ ایک دوسرے کی مخالفت کرتی ہیں۔ الغرض آج کل تنظیم ہی کو معیارِ حبّ و بغض تصور کر لیا گیا ہے۔(ابوعبداللہ شہداد کوٹ سندھ)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
امامِ وقت اگر محسوس کرے تو تنظیم سازی کا جواز ہے۔ ’’صحیح بخاری‘‘ میں حدیث ہے:
’ اُکْتُبُوْا لِیْ مَنْ تَلَفَّظَ بِالْاِسْلَامِ مِنَ النَّاسِ‘(صحیح بخاری، کتاب الجهاد، باب کتابة الامام الناس: ۳۰۶۰)
’’یعنی مجھے ان لوگوں کے نام لکھ کر دو جو مسلمان ہو چکے ہیں۔‘‘
لیکن یہ تنظیم سازی کفر کے مقابلے میں ہے آپس میں نہیں۔ ہم مسلک اور ہم مشرب مختلف گروہوں اور جماعتوں کی تنظیم سازی اتفاق کے بجائے افتراق کا سبب بنے گی اس سے بچاؤ ضروری ہے۔
امت مسلمہ کے ذمہ سب سے اہم فریضہ یہ ہے کہ خلافت و امارت کے قیام کے لیے سعی کریں۔ جملہ امور شریعت ایک نظم و نسق کے تحت آنے سے ہی ملی وحدت کا خواب پورا ہو سکتا ہے۔ ورنہ انجام کارتشتت و تفرق اور انتشار کے ما سوا کچھ نہ ہوگا۔ قرآنی تعلیمات میں اس سے ہمیں باز رہنے کی تلقین کی گئی ہے:
﴿وَلا تَنـٰزَعوا فَتَفشَلوا وَتَذهَبَ ريحُكُم ...﴿٤٦﴾... سورة الأنفال
اور امام المحدثین بخاری رحمہ اللہ نے اپنی’’صحیح‘‘ میں بایں الفاظ تبویب قائم کی:
’ بَابُ مَا یُکْرَهُ مِنَ التَّنَازُعِ وَالِاخْتِلاَفِ فِی الحَرْبِ، وَعُقُوبَةِ مَنْ عَصَی إِمَامَهُ۔‘
پھر آیت بالا سے استدلال کیا ہے۔
انتہائی دکھ درد اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج سیکولرملحدانہ اور بے دین نظریات کے حامل افراد اور تنظیمیں پوری ہمت اور قوت کے ساتھ اسلام اور اہل اسلام کے خلاف اپنی ریشہ دوانیوں اور توانائیوں کواستعمال کر رہے ہیں۔ کسی حد تک وہ اپنی کامیابی اور کامرانی کے خواب پورے ہوتے بھی دیکھ رہے ہیں۔ لیکن اسلام کے علمبردار ار مدعیانِ کتاب و سنت بالخصوص سلفی یا اہل حدیث حضرات بری طرح افتراق و انتشار کا شکار ہیں۔ جس سے واپسی کی راہ بظاہر کوئی نظر نہیں آتی۔ اِلَّا ان یّشاء َ اللّٰه ربنا وسع ربّنا کل شیئٍ علْمًا
دراصل بات یہ ہے کہ قریباً ہر جماعت اور ہر تنظیم کے ذمہ داران اور قائدین حضرات کے ذاتی نوعیت کے کچھ مفادات اور اغراض و مقاصد ہیں۔ جن سے وابستگی ان کے نزدیک جزو ایمان ہے۔ عوام ’’کالانعام‘‘کو دجل و فریب کے ذریعہ سبز باغ دکھا کر انہی کی تکمیل و ترویج میں شب و روز مصروفِ کار ہیںا سی کے نتیجہ میں جگہ جگہ لڑائی جھگڑے اور ریا کاری اور قتل و غارت کا بازار گرم ہے۔ اور تکفیری توپوں کے رُخ غیروں کی بجائے اپنوں کی طرف زیادہ ہیں۔
اندریں حالات خیر وسلامتی کی راہ مجھے تو صرف اس میں نظر آتی ہے کہ جماعتی سیاست سے گوشہ نشینی اختیار کر کے مخلصین احباب کو ساتھ ملا کر یا انفرادی طور پر جیسے بھی ممکن ہو، شہر شہر، قریہ قریہ دعوتی و تبلیغی کام پورے پورے انہماک سے شروع کردیا جائے۔ اللہ تعالیٰ خیر وبرکت فرما کر شرفِ قبولیت سے نوازے گا۔ ان شاء اللہ
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب