نماز کا وقت ختم ہونے سے پہلے اگر نماز شروع کر دی جائے یا نماز کے ممنوع اوقات میں اس سے پہلے نماز شروع کر دے اور پھر غیر ممنوع صلوٰۃ شروع ہو جائے تو ایسے وقت میں کیا کرنا چاہیے۔ اگر دو نمازیں جمع کرنی ہوں۔ پچھلی نماز کی جماعت کے کھڑا ہونے کا وقت قریب ہو۔ اول نماز کی نیت بندھی۔ اور نماز پوری کرنے سے قبل پچھلی نماز کھڑی ہو جائے تو کیا کرنا چاہیے۔ صحابہ رضی اللہ عنہ کا اس میں کیا عمل درآمد تھا۔
جواب:… حدیث میں ہے۔
من أدرك رکعته من الصبح قبل أن تطلع الشمس فقد أدرك الصبح ومن أدرك رکعته من العصر قبل أن تغرب الشمس فقد أدرك العصر (متفق علیه ) (مشکوٰة باب تعجیل الصلوٰة)
’’جو شخص طلوع شمس سے پہلے ایک رکعت صبح کی پا لے، اس نے صبح کی نماز پا لی، اور جو عصر کی ایک رکعت پا لے غروب آفتاب سے پہلے اس نے عصر کی نماز پا لی۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا ہے کہ جو شخص وقت ختم ہونے سے پہلے ایک رکعت پا لے وہ بقیہ نماز پڑھ لے اور جماعت کھڑی ہونے کے وقت پہلی نماز کی اخیری رکعت کے رکوع میں جا چکا ہو تو پوری کر لے ورنہ توڑ کر جماعت کے ساتھ شامل ہو جائے کیونکہ حدیث میں ہے۔
إذا أقیمت الصلوة فلا صلٰوة إلا التی أقیمت لھا
’’یعنی جب اقامت ہو جائے تو پھر کوئی نماز نہیں مگر وہی جس کی اقامت ہوئی ہے۔‘‘
اس حدیث سے دو مسئلے معلوم ہوئے۔
ایک یہ کہ اس حدیث میں اقامت کے بعد نماز کی نفی کی ہے۔ اور یہ بات ظاہر ہے کہ نماز کا اقل درجہ ایک رکعت ہے جیسے وتر ایک رکعت ہے۔ اور بعض صورتوں میں صلوۃ خوف بھی ایک ہی رکعت ہے۔ ایک رکعت سے کم کو نماز نہیں کہتے پس ایک رکعت سے کم پڑھ سکتا ہے۔ جس کی صورت یہ ہے کہ
’’اخیر رکعت کے رکوع میں جا چکا ہو تو پوری کر لے ورنہ توڑ دے۔‘‘
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اقامت کے بعد الگ کوئی نماز نہیں ہونی چاہیے خواہ فرض ہو یا نفل بلکہ امام کے ساتھ شامل ہو جائے۔
رہی یہ بات کہ نیت کون سی نماز کی کرے۔ مثلاً عصر کی نماز ہو رہی ہو تو اس کی ظہر باقی ہے تو کیا امام کے ساتھ شامل ہو کر ظہر کی نیت کرے یا عصر کی۔
عصر کی نیت کرنے کی دلیل اس حدیث کے ظاہر الفاظ ہیں کہ اقامت کے بعد وہی نماز ہے جس کی اقامت ہوئی ہے اور ظاہر ہے کہ اقامت ہوئی ہے۔ پس عصر کی نیت کرنی چاہیے۔ نیز اگر اتفاقیہ امام کو نماز میں دیر ہو گئی اور اس نے اخیر وقت میں نماز پڑھائی تو اس صورت میں اگر یہ ظہر کی نیت کرے تو اس کی دو نمازیں ظہر و عصر قضا ہوں گی۔
ظہر اس لیے کہ وہ اپنے وقت پر نہیں پڑھی گئی۔ بلکہ عصر کے وقت پڑھی گئی ہے۔
اور عصر اس لیے کہ امام کے پڑھاتے پڑھاتے عصر کا وقت بھی ختم ہو گیا۔ تو وہ بھی قضاء ہو گئی۔ اگر امام کے ساتھ عصر کی نیت کرے تو عصر اپنے وقت پر ادا ہو گی۔ صرف ظہر قضا رہی۔
نیز اگر عشاء کی اقامت ہو تو مغرب کی نماز کی نیت کرنے میں خلل واقع ہو گا۔ وہ اس طرح کہ امام کے ساتھ چوتھی رکعت پڑھے تو مغرب کی چار ہو جائیں گی۔ اگر تیسری پڑھ کر بیٹھا رہے اور جب امام چوتھی پڑھ کر سلام پھیر دے تو اس صورت میں سلام سے پہلے درمیان میں امام کی مخالفت لازم آئے گی جو سوا مجبوری کے ٹھیک نہیں۔
ظہر کی یا مغرب کی نیت کرنے کی دلیل یہ ہے کہ:
عصر اور فجر کی نماز کے بعد وقت مکروہ ہے اگر امام کے ساتھ عصرت کرے تو ظہر مکروہ وقت میں پڑھنی پڑے گی۔ اگر دیر کرے تو خطرہ ہے موت واقع ہونے سے کہیں فرض ہی ذمے نہ رہ جائیں۔ نیز اگر ظہر کی نیت کرے یا مغب کی کرے تو اس پر میں ترتیب محفوظ رہتی ہے۔ اگر عصر یا عشاء کی نیت کرے اور ظہر عصر کے بعد اور مغرب عشاء کے بعد پڑھے تو پہلی نماز پیچھے رہ جائے گی اور پچھلی پہلے۔ حالانکہ پہلی پہلے فرض ہے اور پچھلی پیچھے اگر بالفرض پچھلی نماز پڑھتے ہی مر جائے تو پہلی کا گناہ اس کے ذمے باقی رہا اور اگر پہلی پڑھ کر مر جائے تو پچھلی کے بدلے اس کو مواخذہ نہیں کیونکہ اس کا وقت اکثر باقی ہوتا ہے۔
غرض دونوں طرف کچھ کچھ دلائل ہیں اس لیے اختیار ہے کہ پہلی کی نیت کرے یا پچھلی کی۔
نوٹ:… بعض لوگ کہتے ہیں کہ:
عصر یا فجر کے بعد فرضوں کی قضاء دینی چاہیے کیونکہ ان وقتوں میں نماز منع ہے۔
مگر یہ ا ن لوگوں کی غلطی ہے کیونکہ مکروہ وقتوں میں قضا منع نہیں ہے۔ ظہر کی سنتوں کی قضا عصر کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ اور فجر کی سنتیں رہ جائیں تو وہ بھی فجر کی نماز کے بعد پڑھنی ثابت ہیں۔ چنانچہ ہم نے رسالہ ’’امتیازی مسائل‘‘ میں اس کی تفصیل کی ہے۔ تو فرضوں کی قضاء بطریق اولیٰ جائز ہو گی۔ کیونکہ ان کا معاملہ اہل ہے۔ نیز خدانخواستہ دیر کرنے کی صورت میں مر گیا تو فرض ذمے رہ گئے یہ کتنے بڑے خطرہ کا مقام ہے اس لیے فرضوں کی قضامیں بہت جلدی کرنی چاہیے۔ (تنظیم اہل حدیث جلد نمبر ۳ شمارہ نمبر ۲۷)