السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آج کل کشمیر میں مجاہدین اسلام ہندوستان کے مشرکین کے ساتھ جہاد میں برسرپیکار ہیں۔ مگر افسوس کہ بعض مولوی صاحبان متعلقہ تنظیموں مثلاً لشکر طیبہ، البدر، حزب المجاہدین اور حرکۃ المجاہدین وغیرہ کے تحت اس جہاد کو جہاد میں شمار نہیں کرتے بلکہ اسے بالکل ناجائز کہتے ہیں۔ دلائل سے روشنی ڈالیں اور صحیح صورتِ حال واضح فرمائیں۔(سائل )
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کشمیر کا جہاد بلاشبہ بمعنی ’’الجہاد‘‘ ہے لیکن موجودہ حالات میں طریقہ کار درست نہیں۔ اسلام نے جہاد میں خصوصی طور پر ہمیں وحدت کا سبق دیا ہے اور باہمی نزاع سے بایں الفاظ ڈرایا ہے:
﴿وَلا تَنـٰزَعوا فَتَفشَلوا وَتَذهَبَ ريحُكُم ...﴿٤٦﴾... سورة الانفال
’’آپس میں جھگڑا نہ کرنا کہ(ایسا کرو گے تو) تم بزدل ہو جاؤ ے اور تمہارا اقبال جاتارہے گا۔‘‘
لیکن ہماری صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔ تمام جہادی تنظیموں کو چاہیے کہ علیحدہ علیحدہ کی بجائے متحدہ قیادت میں جہاد کی سعی کریں، جس کو شریعت نے امامت سے تعبیر کیا ہے۔
’وَإِنَّمَا الإِمَامُ جُنَّةٌ یُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ ‘صحیح البخاری،بَابُ یُقَاتَلُ مِنْ وَرَاء ِ الإِمَامِ وَیُتَّقَی بِهِ،رقم:۲۹۵۷
’’امام ڈھال ہے جس کے پیچھے لڑائی کی جاتی ہے۔‘‘ کی تصویر کا نظر آنا ضروری ہے ۔ تاکہ امت ِ مسلمہ کماحقہ جہاد کے ثمرات سے مطلوبہ شکل میں مستفید ہو سکے۔ ورنہ تفرق و تشنت کی صورت میں انجام کار وہی کچھ ہے جس کا مشاہدہ افغانستان میں ہو رہا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب