سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(588) جہادی تنظیموں کی شرعی حیثیت

  • 25703
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1099

سوال

(588) جہادی تنظیموں کی شرعی حیثیت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

محترم شیخ الحدیث صاحب۔

۱۔         جہادِ کشمیر میں جو پاکستانی جہادی تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ ان کی اسلام میں کیا حیثیت ہے؟

۲۔        ایک بیٹا جہادی تنظیم کے معسکر میں جا کر بذریعہ خط والدین سے اجازت طلب کرتا ہے اور اجازت نہ ملنے کی صورت میں بغاوت کی دھمکی دیتا ہے۔ اور خط کے آخر میں آپ کا گستاخ نافرمان بیٹا کے الفاظ تحریر کرتا ہے۔اس کے جہاد کی اسلام میں کیا حیثیت ہے؟

۳۔        اس بچے کے والدین خالص اللہ کی رضا جاننے کے لیے آپ سے رجوع کررہے ہیں کہ ان حالات میں والدین کے لیے کیا حکم ہے؟

۴۔        جہاد بالسیف کی اصل شکل کیا ہونی چاہیے؟ اور جہاد کا شوق رکھنے والا اپنی خواہش کیسے پوری کرے؟ (والسلام) (نذیراحمد اسد۔بدوملہی) (۱۷ ستمبر۱۹۹۹ئ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جہادی تنظیمیں اگر فی الواقع اپنے عمل میں مخلص ہیں تو سب کو اکٹھے۔’وَإِنَّمَا الإِمَامُ جُنَّةٌ یُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ ‘"صحیح البخاری،بَابُ یُقَاتَلُ مِنْ وَرَاءِ الإِمَامِ وَیُتَّقَی بِهِ،رقم:۲۹۵۷" کا نقشہ پیش کرنا چاہیے۔ اسلام متحدہ قیادت کا داعی ہے مگر موجودہ طریق ِ کار اور عملِ جہاد میں بھی امید ہے کہ ہر ایک اپنی نیت کے اعتبار سے ماجور ہے۔

۲۔        جہاد پر جانے کے لیے والدین کی اجازت اوّلین فرض ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ  نے اپنی ’’صحیح ‘‘ میں تبویب قائم کی ہے: ’بَابُ الجِہَادِ بِإِذْنِ الأَبَوَیْنِ‘ یعنی جہاد میں والدین کی اجازت کا بیان۔ پھر اس کے ضمن میں یہ حدیث لائے ہیں۔

’’ایک شخص آپﷺ کی خدمت میں جہاد کی طلب میں حاضر ہوا۔ تو آپﷺ نے فرمایا: کیا تیرے والدین زندہ ہیں ؟ اس نے کہا ہاں ! تو فرمایا انہی کی خدمت کرتا رہ۔‘‘ صحیح البخاری، بَابُ الجِہَادِ بِإِذْنِ الأَبَوَیْنِ،رقم:۳۰۰۴

اجازت نہ ملنے کی صورت میں والدین کو دھمکی آمیز خطوط لکھنے والا اللہ اور اس کے رسول کا نافرمان ہے اسے اپنے انجام پر غور کرنا چاہیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ساری محنت اکارت جائے۔

۳۔        بیٹے کا فرض ہے کہ جہادی مہم سے واپس آکر پہلے والدین کو راضی کرے پھر ان کی اجازت پر واپسی موقوف رکھے ورنہ انجامِ کار پر خطرہ ہے۔

۴۔        جہاد بالسیف کے لیے ابتدائی مرحلہ یہ ہے کہ پہلے جہادی تربیت حاصل کی جائے پھر دشمن سے مقابلہ کے لیے اپنے کوہر وقت تیار رکھے۔ ضرورت پڑنے پر میدانِ کارزار میں کود جائے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الجہاد:صفحہ:441

محدث فتویٰ

تبصرے