السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بعض پرائیویٹ سکول اور تعلیمی ادارے جن میں زیر تعلیم طلباء سے فیس ۵۰ روپے تا ۱۵ روپے وصول کی جاتی ہے۔ سرکاری سکولوں کا مروّجہ نصابِ تعلیم ان اداروں میں پڑھایا جاتا ہے۔ ان پرائیویٹ سکولوں کے بانی حضرات کا دعویٰ ہے کہ ہم تعلیمی انقلاب برپا کررہے ہیں۔ فیس کی وصولی کے ساتھ ایسے ادارے زکوٰۃ ،صدقات اور قربانی کی کھالیں بھی مانگتے ہیں۔ جب کہ ان کے مقابلے میں دینی ادارے موجود ہیں۔ جہاں ، غریب ، نادار، یتیم، مسافر طلباء دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ وہ دینی ادارہ طلباء کے جملہ اخراجات رہائش، خوراک، کتابیں، لباس کا کفیل اور ذمہ دار ہوتا ہے۔
کیا ایسے تجارتی مراکز اور کاروباری اداروں پر زکوٰۃ صدقات اور قربانی کی کھالیں خرچ کی جا سکتی ہیں؟ بَیِّنُوْا تُوجرُوْا۔ (۱۷/ اپریل ۱۹۹۸ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قربانی کی کھالوں اور زکوٰۃ و صدقات وغیرہ کے اصل حق دار تجارتی اور کاروباری اداروں کے بجائے افراد مستحقین ہیں۔ جن کی تصریح ’’سورۃ التوبہ‘‘ کی آیت نمبر۶۰ میں ہے۔ تعلیمی ادارے اگر بلا معاوضہ ان کو مستحق طلبہ پر خرچ کرتے ہیں تو یہی مطلوب ہے اور ایسے اداروں اور مراکز کو قربانی کی کھالیں وغیرہ نہیں دینی چاہئیں جو محض تجارتی نکتۂ نظر سے ان کوچلاتے ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب