سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(510) کیا ثنیہ (دو دانتے جانور) کے ہوتے ہوئے جذعہ کی قربانی جائز ہے؟

  • 25625
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1547

سوال

(510) کیا ثنیہ (دو دانتے جانور) کے ہوتے ہوئے جذعہ کی قربانی جائز ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا ثنیہ (دو دانتے جانور) کے ہوتے ہوئے بغیر کسی شرعی عذر کے جذعہ(ایک سال کا جانور جس کے دانت گرے نہ ہوں) کی قربانی جائز ہے؟ جب کہ بخاری شریف میں ہے:

’قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لَا تَذْبَحُوا إِلَّا مُسِنَّةً إِلَّا أَنْ یَعْسُرَ عَلَیْکُمْ فَتَذْبَحُوا جَذَعَةً مِنْ الضَّأْنِ ‘(صحیح مسلم،بَابُ سِنِّ الْأُضْحِیَّةِ،رقم: ۱۹۶۳)

’’نہ ذبح کرو مگر مسنہ، ہاں اگر تنگی ہو تو بھیڑ کا جذع کر سکتے ہو۔‘‘

ناچیز کے نزدیک بخاری شریف کی مذکورہ حدیث کے مطابق اگر کسی بھی جانور کا ثنیہ میسر نہ ہو تو پھر صرف بھیڑ کا جذعہ جائز ہے کیونکہ بخاری کی حدیث زیادہ مفصل ہے۔ آپ احادیث کی روشنی میں وضاحت فرمادیں۔(ابوطاہر نذیر احمد، عبدالرشید۔کراچی) (۲۳ فروری ۲۰۰۱ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حدیث ’لَا تَذْبَحُوْا… الخ‘ ’’صحیح بخاری‘‘کی بجائے ’’صحیح مسلم‘‘ میں ہے۔ حدیث ہذا میں اگرچہ تنگی کی صورت میں دنبے چھترے کے جذعہ( ایک سال کا ) کی قربانی کی اجازت ہے۔ لیکن عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ  کی روایت میں مطلقاً بھیڑ کے جذعہ کی قربانی کا ذکر ہے۔ (سنن النسائی،بَابُ الْمُسِنَّةُ وَالْجَذَعَةُ(۲۰۴/۲)،رقم:۴۳۷۹، السنن الکبرٰی للبیہقی(۲۷۰/۹)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس اس کی سند کو قوی قرار دیا ہے۔ سنن ابی داؤد میں مجاشع کی مرفوع روایت میں بھی علی الاطلاق جذعہ کا جواز ہے۔ لیکن بیہقی کی روایت میں ’جَذَعَةَ مِنْ الضَّاْن‘  کی تصریح ہے اور ابوہریرہ کی روایت جو ترمذی میں ہے، کے مطابق ’’بھیڑ کے جذعہ کی قربانی اچھی ہے۔‘‘ یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے لیکن معنی کے اعتبار سے صحیح ہے ، ان احادیث کی وجہ سے جمہور اہل علم نے حدیث ’لَا تَذْبَحُوْا… الخ‘  کو استحباب اور افضلیت پر محمول کیا ہے چنانچہ عبارت یوں ہے:

’یسْتَحِبُّ اَنْ لَا تَذْبَحُوْا اِلَّا مُسِنَّةً فَاِنْ عَجَزْتُمْ فَاذْبَحُوْا جَذْعَةً مِنَ الضَّاْنِ ‘

’’یعنی تمہارے لیے مستحب یہ ہے کہ دو دانتا ذبح کرو، اگر ایسا کرنا تمہارے لیے مشکل ہو تو بھیڑ کا ایک سال کا بچہ (چھترا) ذبح کرلو۔‘‘

لہٰذا عمومی استثنائی احادیث کے سبب جمہور مطلقاً (یعنی تنگی اور مشکل کے بغیر بھی) دنبے ،چھترے کی قربانی کے جواز کے قائل ہیں، اور یہی بات زیادہ واضح ہے، برخلاف اس کے کہ صرف تنگی کی صورت میں ’جَذَعَۃً مِنْ الضَّاْن‘  کی اجازت دی جائے جو موقف آپ نے اختیار کیا ہے صاحب مرأۃ المصابیح(۳۵۳/۲) نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔ صرف تنگی کی صورت میں ’’جذعہ‘‘ جائز ہے۔ لیکن سابقہ احادیث کی بنا پر مجھے اس میں تردّد ہے اور علامہ البانی رحمہ اللہ  نے تو ابو الزبیر مدلس کی وجہ سے حدیث ’لَا تَذْبَحُوْا اِلَّا مُسِنَّةَ…الخ‘ کی صحت سے انکار کیا ہے ، کیونکہ اس نے اس حدیث کو جابر سے بصیغہ عن سے ذکر کیا ہے اور اصولِ حدیث میں یہ بات معروف ہے کہ مدلس راوی جب تک مروی عن سے تحدیث بیان کرنے یا سماع کی صراحت نہ کرے تو اس کی روایت قابلِ حجت نہیں ہوتی۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، (سلسلة الاحادیث الضعیفۃ:۱۶۱/۱)

ابن عباس رضی اللہ عنہما  کا قول ہے کہ ’’معلوم دنوں‘‘ میں ذکر اللہ سے مراد یہ ہے کہ دس دن ابتدائے ذوالحجہ کے(قربانی کا دن) اور ایامِ تشریق (۱۳ ذوالحجہ تک) ابن عمر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما  ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں کے دوران بازار جاتے تو تکبیرات کہتے، انھیں دیکھ کر عام لوگ بھی شروع کردیتے۔ محمد بن علی تو نفلی نماز کے بعد بھی کہتے۔

تکبیرات کا سلسلہ ابتدائے ذوالحجہ سے تیرہ تاریخ تک نمازوں کے بعد اور عام اوقات میں بھی جاری رہنا چاہیے۔ صحابہ کرام کا عمل اس کے مطابق تھا اور راجح مسلک یہی ہے۔

تعاقب از سید محمد قاسم شاہ صاحب بن پیر محب اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ :

زبیر علی زئی کا شکریہ ادا کرنے والے شمارہ نمبر ۷ (۲۸ ذوالقعدہ ۱۴۲۱ھ) میں ’’قربانی کے ضروری مسائل‘‘ کے عنوان میں آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ : البانی نے’’صحیح مسلم‘‘کی روایت ’لَا تَذْبَحُوْا اِلَّا مُسِنَّة…الخ‘ کو ابو الزبیر کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف کہا ہے۔

اس کے متعلق عرض ہے کہ الشیخ الالبانی نے تو’’صحیح مسلم‘‘کی اور بھی بہت سی روایات کو ضعیف قرار دیا ہے ۔ اگر تدلیس کی وجہ سے مسلم شریف کی یہ روایت ضعیف ہو سکتی ہے تو اسی تدلیس کی وجہ سے اور بھی بہت سی روایات ’’صحیح بخاری‘‘ اور’’صحیح مسلم‘‘کی ضعیف ہو سکتی ہیں اور پھر ان متفقہ صحیح روایات کو ضعیف کرنے کا سلسلہ چل نکلا تو پھر صرف تدلیس کی وجہ سے ہی کیوں؟ صحیح البخاری اور صحیح المسلم میں ایسے بہت سے رواۃ ہیں، جن پر اہل علم نے کلام کیا ہوا ہے تو پھر وہ روایات بھی ساقط عن الاحتجاج ہوجائیں گی! اگر آپ فرمائیں گے کہ ان رواۃ کا دوسری جگہ پر وہ مقام نہیں جو بخاری اور مسلم میں ہے کیونکہ ان کی روایات کو بخاری و مسلم میں امت نے متفقہ طور پر ہی قبول کیا ہے ، تو ان کی شرائط اور پرکھ کی وجہ سے اس میں تدلیس کی روایات بھی شامل ہیں وہ بھی احتجاج کے قابل ہیں۔

امید ہے کہ جواب عنایت فرمائیں گے۔ اگر میں غلطی پر ہوں تب بھی صحیح بات سے مستفید فرمائیں گے۔

والسلام : احقر العباد ابو احسان اللہ۔ محمد قاسم محب اللہ الراشدی الحسینی عفا اللہ عنہم

جوابِ تعاقب:

 بلاشبہ’’صحیح بخاری‘‘اور مسلم کا مرتبہ و مقام اپنی جگہ مسلمہ ہے لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ ان میں کئی ایک مدلس راوی موجود ہیں۔ شارحین حدیث بالخصوص حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  کی عادت ہے کہ’’صحیح بخاری‘‘کے مدلس راوی پر وارد اعتراضات کا’’فتح الباری‘‘ میں دفاع ہر ممکن صورت میں کرتے ہیں۔ دفاع کی ضرورت اس لیے پیش آتی ہے کہ تدلیس قدح(ایک نقص) ہے، اس نسبت سے راوی کے معیوب ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے، اس نازک مسئلے کی اہمیت کے پیش نظر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  نے کتاب (تعریف اہل التقدیس بمراتب الموصوفین بالتدلیس) لکھ کر اس کو خوب اجاگر کیا ہے۔ مرتبہ اولیٰ میں تینتیس وہ افراد ذکر کیے ہیں، جو بہت کم موصوف بالتدلیس ہیں۔ اور مرتبۂ ثانیہ میں بھی یہی گنتی ہے۔ ان سب رایوں کی امامت و جلالت مسلمہ ہے اور روایات میں وہ قلت ِ تدلیس سے معروف ہیں جیسے سفیان ثوری ہیں، یا جس راوی کے بارے میں علم ہے کہ وہ صرف ثقہ سے تدلیس کرتا ہے ، جس طرح سفیان بن عیینہ ہیں۔ ان حضرات کی تدلیس کو ائمہ فن نے قابلِ برداشت سمجھا ہے۔

پھر مرتبہ ثالثہ میں پچاس افراد کا تذکرہ ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کثرت سے تدلیس کرتے ہیں۔ ائمہ نے ان کی احادیث کو صرف اسی صورت میں قابلِ حجت سمجھا ہے کہ وہ سماع کی صراحت کریں(یعنی لفظ’’عن‘‘ بولنے کی بجائے ’سمعت‘ کہیں) زیر بحث راوی ابو الزبیر مکی کا شمار بھی انہی لوگوں میں ہے اور اس نے مشارٌالیہ حدیث ’عن‘ کے لفظ سے بیان کی ہے، سماع کی صراحت نہیں۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ محدثین کے قواعد و ضوابط کے مطابق اس کا جواب تلاش کیا جائے۔ اس صورت میں علامہ البانی رحمہ اللہ  کی طرف سے وارد شبہ خود بخود زائل ہو سکتا ہے۔اگر ’’دارقطنی‘‘ کے اعتراضات کے جوابوں کی ضرورت محسوس ہوسکتی ہے تو اس اعتراض کا رفع ہونا بھی ضروری ہے۔ مجھے امید ہے کہ علمی اسلوب میں آپ اس کی طرف توجہ فرمائیں گے۔ اس مسئلے کی مزید تفصیل تلمیذی عبد الرشید راشد کی طرف سے ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔

اس تعاقب کا جائزہ۔(از مولانا عبدالرشید راشد)

موقر جریدے’’ الاعتصام‘‘ کے شمارہ نمبر ۷ (بتاریخ ۲۸ ذوالقعدہ۱۴۲۱ھ) میں حضرت الاستاذ شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ صاحب مدنی متعنا اللہ بطول حیاتہ کا ایک مضمون’’قربانی کے ضروری مسائل‘‘ کے عنوان سے طبع ہوا، جس میں حضرت نے’’صحیح مسلم‘‘کی معروف روایت : ’لَا تَذْبَحُوْا اِلَّا مُسِنَّة اِلَّا اَنْ یُّعْسَرَ عَلَیْکُمْ فَتَذْبَحُوْا جَذْعَةً مِنَ الضَّأْنِ‘ کی تضعیف محدث العصر علامہ البانی رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کی اور اس کی علت یہ بیان فرمائی کہ اس میں ابو الزبیر مکی مدلس راوی ہے اور یہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ  سے مذکورہ سند میں عنعنہ(لفظ عن) سے بیان کرتاہے۔ اس لیے یہ حدیث ضعیف ہے۔

اس پر محترم محمد قاسم شاہ صاحب الراشدی بایں الفاظ معترض ہیں کہ:

’’الشیخ البانی نے تو’’صحیح مسلم‘‘کی اور بھی بہت سی روایات کو ضعیف قرار دیا ہے۔‘‘

بنظر انصاف غور فرمائیں کہ مذکورہ علت کا یہ جواب کس قدر مناسب ہے ؟ کیونکہ اس وقت شیخ البانی رحمہ اللہ  کی شخصیت زیر بحث نہیں۔ جب کہ علم حدیث سے تعلق رکھنے والے حضرات شیخ البانی رحمہ اللہ کی خدماتِ جلیلہ سے بخوبی آگاہ ہیں۔ البتہ خطأ و سہو سے کوئی بھی شخصیت مستثنیٰ نہیں۔

تصحیح و تضعیف سے متعلقہ علماء کے اقوال کو محدثین کے مسلمہ اصول حدیث کی روشنی میں دیکھنا چاہیے اور مسلمہ و متفقہ اصول کی بنا پر ہی ان سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ اب پہلے ابو الزبیر مکی کے متعلق محدثین کے اقوال ملاحظہ فرمائیں۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ’’تقریب‘‘ میں فرماتے ہیں کہ:

’صُدُوْقٌ اِلَّا أَنَّه یُدَلِّسُ‘

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  نے ابو الزبیر مکی کو اپنی تالیف تعریف اہل التقدیس بمراتب الموصوفین بالتدلیس(ص:۱۰۸) میں مدلسین کے طبقہ ثالثہ میں ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے:

’مَشْهُوْرٌ بِالتَّدْلِیْسِ وَوَهْمُ الْحَاکِمِ فِی کِتَابِ عُلُوْمِ الْحَدِیْثِ فَقَالَ فِیْ سَنَدِهٖ : وَ فِیهِ رِجَالٌ غَیْرمَعْرُوْفِیْنَ بِالتَّدْلِیْسِ ‘‘ وَ قَدْ وَصَفَهُ النَّسَائِی وَغَیْرُهُ بِالتَّدْلِیْس ‘

اس طبقہ کے مدلسین کے متعلق علماء کی راجح رائے یہی ہے کہ اگر یہ تحدیث کی صراحت کریں تو قابلِ حجت ہیں وگرنہ نہیں۔

امام سبط بن عجمی شافعی نے بھی ابوالزبیر کو مدلسین میں ذکر کیا ہے۔ ملاحظہ ہو: التبیین لاسماء المدلسین ، ص:۵۴۔ امام ذہبی فرماتے ہیں:

’وَ أََمَا اَبُوْ مُحَمَّد بْنِ حَزْم، فَاِنَّهٗ یَرُدُّ مِنْ حَدِیْثِهٖ مَا یَقُوْلُ فِیْهِ ’عَنْ جَابِرٍ‘ وَ نَحْوِهٖ لِاِنَّهٗ عِنْدَهُمْ مِمَّنْ یُدَلِّسُ‘

البتہ اگر ابو الزبیر سے روایت کرنے والے اللیث بن سعد ہوں تو محدثین کے ہاں ابوالزبیر کا عنعنہ سے روایت کرنا بھی قابلِ حجت ہے۔ جس کی دلیل وہ قصہ ہے جسے امام ذہبی اور حافظ ابن حجر وغیرہ نے ذکر کیا ہے کہ سعید بن ابی مریم کہتے ہیں ہمیں اللیث نے بیان کیا کہ:

’جِئْتُ اَبَا الزُّبَیْر فَدَفَعَ اِلیّ کِتَابَیْنِ فَانْقَلَبْتُ بِهِمَا ثُمَّ قُلْتُ فِیْ نَفْسِیْ : لَوْ عَاوَدته فَسَألته أَ سَمِعَ هٰذَا کُلُّهُ مِن جَابِرٍ ؟ فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ : مِنْهُ مَا سَمِعْتُ ، وَ مِنْهُ مَا حَدَّثْتُ بِهٖ؟ فَقُلْتُ: أَعْلِمْ لِیْ عَلٰی مَا سَمِعْتَ مِنْه فَاعلم لِیْ عَلٰی هٰذَا الَّذِیْ عِنْدِیْ‘

جہاں اس قصے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللیث بن سعد کی ابوالزبیر سے بیان کردہ روایات قابلِ صحت ہیں، وہاں اس سے ابوالزبیر کے مدلس ہونے کی شہادت بھی ملتی ہے۔

اگر کسی روایت میں تضعیف کی معقول علت موجود ہو تو اس کی صحت کے لیے صرف’’صحیح مسلم‘‘میں ہونا تو کافی نہیں۔ اسی لیے امام ذہبی ’’میزان الاعتدال‘‘ (۳۹/۴) میں فرماتے ہیں:

’ وَ فِی صَحِیْحِ مُسْلِم عدة اَحَادِیْث مِمَّا لَمْ یُوْضِحْ فِیْهَا اَبُو الزَّبیر السَّمَاع مِنْ جَابِرٍ وَ لَا هِیَ مِنْ طَرِیْقِ اللَّیْثِ عَنْهُ فَفِی الْقَلْبِ مِنْهَا شَیْء ‘

معلوم ہوتا ہے کہ ابو الزبیر کی تدلیس کی وجہ سے ہی امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کی روایات کو اپنی’’صحیح‘‘ میں ذکر کرنے سے احتراز کیا ہے۔’’صحیح بخاری‘‘میں ابو الزبیر کی صرف ایک ہی روایت کتاب البیوع میں موصول ذکر ہوئی ہے۔ اور اس میں معروف تابعی عطاء نے ابوالزبیر کی متابعت کی ہے۔ جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  نے ’’ھدی الساری‘‘ (ص:۴۶۴) میں اس کی صراحت کی ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’التہذیب‘‘ میں بھی اسی طرف اشارہ کیا ہے کہ

’حَدِیْثُهُ عِنْدَ الْبُخَارِیِّ مَقرُوْنٌ بِغَیْرِهٖ ‘

اب ’’صحیح مسلم‘‘ کی وہ سند ملاحظہ فرمائیں جسے حضرت الاستاذ اور علامہ البانی رحمہ اللہ  نے ضعیف کہا ہے:

’ حَدَّثَنَا اَحْمَدُ بْنُ یُوْنُس حَدَّثَنَا زُهَیْرٌ حَدَّثَنَا اَبُو الزُّبَیْر عَنْ جَابِرٍ قَالَ… الخ ‘

تلاش بسیار کے باوجود ہمیں کوئی ایسا طریق نہیں مل سکا جس میں ابوالزبیر کی حضرت جابر سے اس روایت میں سماع کی تصریح ہو اور ابوالزبیر سے بیان کرنے والے اللیث بن سعد بھی نہیں۔ اب مذکورہ بحث کی روشنی میں آپ خود فیصلہ فرمائیں کہ شیخ البانی کا اسے ضعیف قرار دینا بے محل ہے ؟اور اس سے قبل امام ذہبی رحمہ اللہ کا مذکورہ بالا قول’فَفِی الْقَلْبِ مِنْهَا شَیْئٌ ‘ کس حقیقت کی غمازی کرتا ہے ؟

علمی اور ٹھوس حقائق کی روشنی میں ’’صحیح مسلم‘‘ کی کسی روایت سے اختلاف کا حق باقی ہے، البتہ مستشرقین اور آج کے ’’دانش وروں‘‘ کے صحیحین کو بلاوجہ تختہ مشق بنانے کی کسی طرح حمایت نہیں کی جا سکتی، محدثین کے مسلّمہ ضوابط کی روشنی میں کسی روایت کے حکم میں اختلاف کرنے سے صحیحین کی تنقیص لازم نہیں آتی، جبکہ اس سے قبل علمائے امت نے صحیحین کی درج ذیل روایت کو علمی حقائق کی روشنی میں معلول قرار دیا ہے۔

’ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ سَلَّمَ تَزَوَّجَ مَیْمُوْنَةَ وَهُوَ مُحْرِم ‘(صحیح البخاری،بَابُ تَزْوِیجِ المُحْرِمِ،رقم:۱۸۳۷)

امید ہے کہ حقائق کی روشنی میں ’’صحیح مسلم‘‘ کی مذکورہ بالا روایت کا حکم اصحاب بصیرت پر واضح ہو گا۔ اگر کوئی صاحب علم مذکورہ سند میں ابو الزبیر کا حضرت جابر سے سماع ثابت کردیں تو راقم ان کا ممنون ہوگا۔

اللہ تعالیٰ ہمیں حقائق قبول کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین۔

کیا صحیح میں مدلسین کی روایات قابلِ حجت نہیں ہیں؟

( صحیح بخاری ، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ میں حدیث ہے کہ ’’ جب ’’حاکم‘‘ کسی فیصلے میں اجتہاد سے کام لے اور اس کا اجتہاد درست ہو تو اس کے لیے دو اجر ہیں اور اگر کسی فیصلے میں اس کا اجتہاد غلط ہو جائے تو اس کے لیے ایک اجر ہے۔‘‘ … اہل علم ،فقہاء اور مجتہدین کا مختلف فقہی مسائل میں اختلاف اسی حدیث کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے… ۲۵ مئی ۲۰۰۱ء کے ’’الاعتصام‘‘ میں شیخ الحدیث حضرت مولانا حافظ ثناء اللہ خان مدنی صاحب نے’’صحیح مسلم‘‘کی ایک حدیث کو اپنی تحقیق کے مطابق راوی ابوالزبیر کی تدلیس کی وجہ سے ناقابلِ حجت قرار دیا تھا، جب کہ دیگر کئی ایک اہل علم کے نزدیک یہ موقف درست نہیں ہے… دراصل صحیحین کی مدلسین سے مروی احادیث کے قبول اور عدمِ قبول میں اگرچہ علمائے سلف میں اختلاف رہا ہے مگر اکثر اہل علم و تحقیق کی رائے یہی ہے کہ صحیح کی ارجحیت اور امامین جلیلین کی صحت و نقل حدیث میں حد درجہ احتیاط کی وجہ سے وہ قبولیت کا درجہ رکھتی ہیںِ… اسی موقف کی بناء پر ’’الاعتصام‘‘ کو چند حضراتِ علم و ماہرین فن حدیث کی طرف سے تنقیدیں و تحقیقی مضامین موصول ہوئے ہیں جو علمی دیانت و امانت کے تقاضوں کے پیش نظر قارئین’’ الاعتصام‘‘ کی نذر کیے جا رہے ہیں؟۔(ادارہ)

(۱) تعاقب از حضرت مولانا ابوالاشبال احمد شاغف، مکہ مکرمہ:

محترم جناب حافظ ثناء اللہ مدنی صاحب! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

۲۵ مئی کے ’’الاعتصام‘‘ میں حدیث’لَا تَذْبَحُوْا اِلَّا مُسِنَّة…الخ‘  پر اعتراض اور اس کا جواب پڑھا۔ یہ ایک علمی بحث ہے جو تحقیق کی متقاضی ہے۔ تقلید اور محض جذبات سے اسے حل کرنا جہالت نہیں تو نادانی ضرور ہے۔

صحیحین پر اعتراضات کا سلسلہ قدیم بھی ہے اور جدید بھی۔ ابو الحسن الدارقطنی وغیرہ کے اعتراضات کا جواب تو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  نے ’’ھدی الساری‘‘ میں بالتفصیل دے دیا ہے۔ اور حافظ کے جوابات سے ظاہر ہوتا ہے کہ دارقطنی رحمہ اللہ  وغیرہ نے غلط فہمی کی بناء پر امام بخاری رحمہ اللہ  وامام مسلم رحمہ اللہ  پر اعتراضات کا باب کھولا اور بعد میں آنے والوں نے اپنی جہالت کا ثبوت دیا۔

ایک اصولی بات ہے کہ امام بخاری و مسلم نے ’’صحیحین‘‘کو مرتب کرتے ہوئے التزام صحت کو ملحوظ ہی نہیں رکھا بلکہ تصنیف کے بعد انھیں بڑے بڑے ائمۂ فن کے سامنے پیش کیا اور ان ائمہ فن نے ان کی صحت کی تصدیق و تحسین کی پھر انھوں نے اس کی تحدیث کی اور امت مسلمہ نے تلقی بالقبول سے نوازا۔

اعتراض کرنے والے چاہے امام دارقطنی ہوں یا شیخ ناصر الدین البانی یا اور کوئی محدث ِ زمان یہ سارے امام بخاری و مسلم کے سامنے بونے نظر آتے ہیں۔

ذرا سوچئے اور غور کیجیے کہ جو شخص سات لاکھ حدیثوں کا حافظ ہو نیز ان کے راویوں اور علل وغیرہ سے بھی واقف ہو اس پر کوئی مقلد اعتراض کرنا شروع کردے تو اس کو جہالت ہی سے تعبیر کیا جائے گا۔’’صحیح مسلم‘‘کی حدیث ’لَا تَذْبَحُوْا اِلَّا مُسِنَّة…الخ‘ پر غالباً ’’دارقطنی‘‘ وغیرہ نے اعتراض نہیں کیا۔ (وَاللّٰہُ تَعَالٰی اَعْلَمُ۔) ۔ البتہ البانی صاحب رحمہ اللہ  اور پھر ان کے عقیدت مندوں نے جی بھر کر اسے اچھالنا شروع کردیا اور یہ بازار اب تک گرم ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔

میں نے البانی صاحب کی بہت سی علمی غلطیوں پر ان کی جو کتابیں میرے پاس ہیں ان پر بطورِ تنبیہ کچھ لکھ رکھا ہے۔ دس بارہ سال قبل جب وہ جدہ تشریف لائے تو میں نے اس کی نقل انھیں پیش کی کہ آئندہ ایڈیشن میں تصحیح کرلیں۔ لیکن غالباً وہ سمجھ نہ سکے۔

البانی صاحب تو اپنے رب سے جا ملے، ان کے مقلدوں سے سوال ہے کہ امام مسلم کو یہ معلوم تھا یا نہیں کہ ابو الزبیر مدلس ہے ؟ اگر جواب نفی میں ہے تو جہالت ۔ اور اثبات میں ہے تو ان کی روایتوں پر جو’’صحیح مسلم‘‘میں ہیں اعتراض صحیح نہیں۔ بلکہ امام مسلم نے ان کی وہی روایتیں صحیح میں شامل کی ہیں، جن کی صحت مسلّم تھی اور ان میں کوئی علت نہیں کیونکہ شرطِ صحیح اس کی متقاضی ہے۔ لہٰذا معترضین کو اعتراض سے قبل ان کے جمیع طرق سے واقفیت ضروری ہے ورنہ اعتراض جائز نہیں۔ چاہے معترض دارقطنی ہوں یا ابن حزم و البانی ،کسی کے لیے جائز نہیں۔

البانی صاحب کے مقلدین غالباً اس سے باخبرہوں گے کہ محدثین نے کتب احادیث پر مستخرجات کا التزام کیا ہے اور خاص طور سے صحیحین پر کئی مستخرجات ہیں۔ نیز مستخرجات کے فوائد سے بھی واقف ہوں گے۔ لہٰذا صحیحین پر اعتراض کرنے سے قبل ان مستخرجات کی طرف رجوع کرلینا چاہیے۔ اس وقت میرے پاس مسند ابی عوانہ مخطوط( قلمی نسخہ) اور کچھ مطبوع موجود ہیں یہ کتاب مستخرج علی صحیح مسلم ہے۔ اس کی مطبوعہ جلدوں میں سے پانچویں جلد کے ص:۲۸۷ اور ص: ۲۸۸ پر اس حدیث زیر بحث کی بعض اسانید مذکور ہیں اور ص: ۲۸۸ پر ہے: رَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنِ بَکْرٍ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ حَدَّثَنِی اَبوُ الزُّبَیْرِ أَنَّه سَمِعَ جَابِرًا یَقُوْل و ذکر الحدیث   یہ طریق معلق ہے یہاں مصنف نے بالکل امام بخاری کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ امام بخاری نے اپنی ’’صحیح ‘‘ کے اکثر مقامات پر تحدیث و سماع ثابت کرنے کے لیے اسی طرح کیا ہے۔

معلوم ہوا کہ ابو الزبیر نے حضرت جابر سے اس حدیث کو سنا ہے۔ امام مسلم کو اس کی خبر تھی۔ انھیں کیا خبر تھی کہ ایک دور ایسا بھی آئے گا کہ وہ شخص بھی ان پر اعتراض کرنے کھڑا ہو جائے گا۔ جو ان کی پشم کے برابر نہیں ہوگا۔ بہرحال امام مسلم کی یہ حدیث بالکل صحیح ہے ۔اس پر اعتراض کرنے والوں کی نادانی کہہ لیجیے یا جہالت۔

یہ چند سطور دفاعِ صحیحین کے سلسلہ میں لکھی گئی ہیں اگرچہ اس میں کچھ تلخی بھی ہے لیکن میں صحیحین پر اعتراض برداشت نہیں کرتا۔ چاہے وہ کسی کے قلم سے ہو ۔ امید ہے کہ آپ غور فرمائیں گے۔ (ابوالاشبال احمد شاغف)(۲۲ جون ۲۰۰۱ئ)

(۲) صحیحین میں مدلسین کی روایات اور حدیث مسنہ ( از حضرت مولانا ارشاد الحق اثری، فیصل آباد)

صحیح مسلم شریف ،ص:۱۵۵،ج:۲، میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ

’لَا تَذْبَحُوْا اِلَّا مُسِنَّةً اِلَّا اَنْ یُّعْسَرَ عَلَیْکُمْ فَتَذْبَحُوْا جَذْعَةً مِنَ الضَّأْنِ‘(صحیح مسلم،بَابُ سِنِّ الْأُضْحِیَّةِ،رقم:۱۹۶۳)

’’ قربانی میں نہ ذبح کرو مگر مسنہ ہاں اگر تنگی ہو تو بھیڑ کا جذعہ کرلو۔‘‘

اس روایت کے بارے میں حافظ ابن حزم، علامہ البانی اور ہمارے محترم مولانا حافظ ثناء اللہ صاحب مدنی مدظلہ العالی کی رائے ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے۔ کیونکہ ’’ابو الزبیر‘‘ راوی مدلس ہے اور روایت معنعن ہے۔ اسی پر جناب مولانا محمد قاسم الراشدی پیر آف جھنڈاd جو ما شاء اللہ اپنے آباؤ اجداد کی وراثت علمی کے وارث ہیں۔ نے تعاقب کیا۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ

 ’’ ابوزبیر ہی نہیں اور بھی’’صحیح بخاری‘‘و ’’صحیح مسلم‘‘ میں مدلسین کی روایات ہیں۔ تو وہ بھی ضعیف ہیں بلکہ صحیحین میں کئی راوی ہیں جن پر اہل علم نے کلام کیا ہے تو کیا وہ بھی ساقط عن الاحتجاج ہوں گی؟ صحیحین میں ان کی روایات صحیح ہیںتو مدلسین کی روایات بھی صحیح ہیں۔‘‘

اس کے جواب میں محترم مولانا حافظ ثناء اللہ صاحب مدنی اور پھر ان کے تلمیذ رشید مولانا عبدالرشید راشد صاحب نے جو کچھ لکھا، قارئین کرام اس کی تفصیل ’’الاعتصام‘‘ ج:۵۳،شمار نمبر:۱۹(۲۵ مئی ۲۰۰۱ء) میں ملاحظہ فرمائیں،۔ خلاصہ کلام یہ کہ ’’ ابوالزبیر مدلس ہے۔ صحیحین پر امام دارقطنی کے اعتراضات کے جواب کی ضرورت ہے تو اس اعتراض کا رفع کرنا بھی ضروری ہے۔علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے تو فرمایا ہے کہ’’صحیح مسلم‘‘میں متعدد روایات ہیں جن میں ابو الزبیر نے جابر سے سماع کی صراحت نہیں کی:

’ فَفِی الْقَلْبِ مِنْهَا شَیْء ‘(میزان الاعتدال:۳۹/۴ )

’’اور مسلم کی اس روایت میں بھی ابوالزبیر مدلس ہے۔ صراحتِ سماع ثابت نہیں۔‘‘

امام دارقطنی رحمہ اللہ کے اعتراضات کی نوعیت کیا ہے ؟ اس کی تفصیل یہاں غیر ضروری ہے ۔ تاہم صحیحین کی عظمت و رفعت کی بناء پر ہی علماء نے ان کے جوابات بھی دیے ۔ اسی طرح مدلسین و مختلطین کے بارے میں جو اعتراضات ہیں، ان کے جوابات بھی دیے گئے اور انہی میں سے ایک جواب یہ ہے کہ متقدمین محدثین نے جن روایات میں انقطاع یا عدم سماع کی صراحت نہیں کی ان میں سے صحیحین کے مدلسین کی روایات، بالخصوص وہ جو اصول میں مروی ہیں۔ محمول علی السماع ہوں گی۔ جس کی تفصیل ’’توضیح الکلام‘‘ (:۲ص:۲۹۵،۴۶۴) وغیرہ میں دیکھی جا سکتی ہے۔

علامہ ابن دقیق العید رحمہ اللہ  اور علامہ المزی رحمہ اللہ  نے اس بارے کچھ شبہات کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے صحیحین میں مدلسین کی بعض روایات میں صراحت سماع ثابت نہیں۔ مگر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’ لَیْسَتِ الاَحَادِیْثُ الَّتِیْ فِی الصَّحِیحَیْنِ بِالْعَنْعَةِ عَنِ الْمُدَلِّسِیْنَ کُلَّهَا فِی الاِحْتِجَاجِ فَیُحْمَلُ کَلَامُهُمْ هُنَا عَلٰی مَا کَانَ مِنْهَا فِی الْاِحْتِجَاجِ فَقَطْ، وَ أَمَا مَا کَانَ فِی الْمُتَابِعَاتِ فَیَحْتَمِلُ اَنْ یَّکُوْنَ حصل التَّسَامِح فِی تَخْرِیْجِهَا کَغَیْرِهَا …‘ (النکت علی ابن الصلاح،ج:۲،ص:۶۳۶)

’’صحیحین میں مدلسین کی معنعن روایات تمام کی تمام ایسی نہیں جن سے احتجاج و استدلال کیا گیا ہے اور جن حضرات نے کہا ہے کہ صحیحین میں مدلسین کی معنعن روایات محمول علی السماع ہیں۔ تو اس سے مراد وہی روایات ہیں جن سے استدلال کیا گیا ہے۔ البتہ وہ روایات جو متابعات میں ہیں، تو ان کے بارے میں احتمال ہے کہ ان میں تسامح ہوا ہو جیسا کہ دوسری متابعات میں تسامح ہوا ہے۔

امام مسلم رحمہ اللہ دوسرے طبقہ کے راویوں سے بھی متابعات میں روایت لیتے ہیں۔ جیسے ان کی روایات اور طبقہ اولیٰ کے راویوں کی روایات میں فرق ہے ، یہی فرق استدلالاًو احتجاجاً روایت میں اور اس کی متابعات میںمدلسین کے بارے میں بھی ملحوظ رکھنا چاہیے۔‘‘

متقدمین محدثین  رحمہم اللہ   کے پیش نظر لاکھوں احادیث بالکل سامنے اور آنکھوں سے دیکھنے کی بات تھی۔ جیسا کہ ان کے تراجم میں کہا گیا ہے: ’کَأَن السنن بَیْنَ عَیْنَیْہِ ‘ وہ حضرات اگر کسی روایت میں انقطاع و تدلیس کا حکم لگائیں تو اس کی نوعیت اور ہے۔ حافظ ابن حزم یا متاخرین میں کسی کا یہ فیصلہ بہر نوع محل بحث و نظر ہے۔

حافظ ابن حزم رحمہ اللہ  کا اپنی تمام تر وسعت ِ نظر کے باوجود نقد و جرح میں وہ مقام نہیں جو ائمہ متقدمین کو حاصل ہے۔ جس کا کسی بھی صاحب ِ علم کو انکار نہیں۔ ضرورت محسوس ہوئی تو اس کے بارے میں بھی شواہد پیش کردیے جائیں گے۔ ان شاء اللہ

علامہ ذہبی اور مسلم میں مدلس کی معنعن روایت:

علامہ ذہبی رحمہ اللہ کی قدرو منزلت سے کون واقف نہیں؟ انھوں نے بھی’’صحیح مسلم‘‘میں ابوالزبیر کی معنعن روایت پر عدم اطمینان کا اظہار فرمایا اور بطورِ دلیل’’صحیح مسلم‘‘کی تین احادیث بھی ذکر کردیں جو حسب ذیل ہیں:

۱۔         ’لَا یَحِلُّ لِأَحَدِکُمْ أَنْ یَحْمِلَ بِمَکَّةَ السِّلَاحَ‘

۲۔        رَأَی عَلَیْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ اِمْرَأَةً فَاَعَجَبْتُه فَأتَی اَهله زینب

۳۔        اَلنَّهْیُ عَنْ تَجْصِیْصِ الْقَبْرِ   (المیزان ،ج:۴،ص:۳۹)

حالانکہ تیسری روایت جو’’صحیح مسلم‘‘(ج:۱،ص:۳۱۲) میں ’حفص بن غیاث عن ابن جریح عن ابی الزبیر عن جابر‘ کی سند سے معنعن مروی ہے ، خود’’صحیح مسلم‘‘ہی میں اس کے بعد ’حجاج بن محمد و عبدالرزاق عن ابن جریج قال أخبرنی ابوالزبیر أنہ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدَ اللّٰہِ‘ سے صراحت سماع کے ساتھ بھی مروی ہے ۔

تعجب ہے کہ علامہ ذہبی سے یہ بات مخفی کیسے رہی؟ علامہ کوثری نے مقالات میں اسی روایت کو ابوالزبیر کی تدلیس کی بناء پر ضعیف قرار دیا مگر علامہ البانی رحمہ اللہ  نے ’’تحذیر الساجد‘‘ ،ص:۲۹ میں ان کی تردید کی ہے اور

کہا ہے کہ’’صحیح مسلم‘‘اور ’’مسند احمد‘‘ میں تحدیث ثابت ہے بلکہ سلیمان بن احمد نے اس کی متابعت بھی کی ہے۔ تفصیل ’’تحذیر الساجد‘‘ میں ملاحظہ فرمائیں۔

دوسری حدیث’’صحیح مسلم‘‘(ج:۱،ص: ۴۴۹) میں ’اَبو الزُّبَیْر عَنْ جَابِرٍ‘ کی سند سے مذکور ہے۔ حالانکہ مسند امام احمد(ج:۳،ص:۳۴۸) میں یہی روایت ’ابن لھیعۃ عن ابی الزبیر قَالَ أَخْبَرَنِی‘ کی سند سے مروی ہے جس سے سماع کی صراحت ثابت ہوتی ہے۔ اور مسند (ج:۳،ص:۳۴۱) میں ’ابن لھیعةَ ثَنَا أَبو الزُّبَیْرِ عَنْ جَابِرٍ‘کی سند سے بھی مروی ہے ، جس میں ابن لھیعہ کی صراحت سماع منقول ہے۔ مزید برآں حضرت جابر رضی اللہ عنہ  کی روایت کا شاہد حضرت ابو کبشہ رضی اللہ عنہا  انماری سے ثابت ہے جسے امام احمد (مسند، ج:۴، ص:۲۳۱) وغیرہ نے روایت کیا ہے۔ اس لیے حضرت جابر  رضی اللہ عنہ  کی یہ روایت بھی صحیح ہے ۔ ضعیف نہیں۔

پہلی روایت صحیح مسلم(ج:۱،ص:۴۳۹) ،کتاب الحج میں منقول ہے۔ جو ’مَعْقَل عَنْ اَبِی الزُّبَیْرِ عَن جَابِرٍ‘ کی سند سے مروی ہے۔ مگر یہی روایت ’’مسند احمد‘‘(ج:۳،ص:۳۱۰،۳۹۳) میں ’موسٰی و حسن کلاھما عَنِ ابْنِ لِھْیعَۃ اَنَا وَ اَبُو الزُّبَیْرَ قَالَ وَ أَخْبَرَنِیْ جَابِرٌ‘ اور ایک سند میں ’أَنَّ جَابِرًا أَخْبَرَہٗ‘ کی سند سے منقول ہے۔ ، جس میں صراحت سماع منقول ہے۔ مگر اس میں تحریم مدینہ کا اشارہ ہے ، ’’مکۃ‘‘ کی حرمت میں صراحتاً ذکر نہیں۔ نیز یہ روایت امام مسلم نے تحریم مکہ کے بیان میں حضرت ابوہریرہ، حضرت عمرو بن سعید اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما  کی مفصل روایت کے بعد گویا متابعت میں ذکر کی ہے۔ اس لیے اپنی اصل کے اعتبار سے یہ روایت بھی ضعیف نہیں۔ تعجب ہے کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے ’’صحیح الجامع‘‘ (رقم:۶۴۵،ج:۲،ص:۱۲۶۶) میں اسی روایت کو ذکر کرکے گویا اس پر صحیح کا حکم لگایا مگر اس کے لیے انھوں نے مزید مختصر مسلم ،رقم:۷۶۷ کا حوالہ دیا۔ جب کہ مختصر مسلم للمنذری میں حاظ ذہبی رحمہ اللہ کے حوالہ سے ابوالزبیر کی تدلیس پر اعتراض نقل کیا ہے ، اس کو صحیح نہیں کہا۔ حالانکہ یہ اعتراض بھی درست نہیں۔ ابن لھیعہ کی روایت میں صراحت سماع ثابت ہے۔ وہ فی نفسہ ثقہ و صدوق ہے اختلاط کے باعث اس پر کلام ہے اور جن حضرات نے اس سے اختلاط سے پہلے سنا ہے ، ان کی احادیث حسن بلکہ صحیح قرار دی گئی ہیں اور شواہد و متابعات میں بھی جب اس کی روایت مقبول ہے ، وہ مدلس کے سماع کی صراحت کردے تویہ صراحت ِ سماع مردود کیوں ہے ؟ بلاشبہ ثبوت سماع کے لیے سند کی صحت ضروری ہے مگر مدلس کا اپنے استادسے سماع تو ہوتا ہے ۔ لیکن تدلیس کی وجہ سے اس کی معنعن روایت قابل قبول نہیں ہوتی۔ اور جب ابن لھیعہ نے جو فی نفسہ ثقہ و صدوق راوی ہے ، صراحت سماع کردی تو وہ مقبول ہونی چاہیے نہ کہ مردود۔

غور فرمائیے کہ مسند امام احمد (ج:۳،ص:۳۴۷) کے حوالے سے ’’صحیح مسلم‘‘ کی تائید میں جو روایت ہم پیش کر آئے ہیں ، علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے ’’السلسلۃ الصحیحۃ،رقم:۲۹۳۸، (ج:۶،ص:۱۰۵۲) میں ذکر کیا ہے۔ اس کے بارے فرماتے ہیں:

’رِجَالُ اِسْنَادِهِ  ثِقَاتٌ رِجَالُ مُسْلِم غَیْرَ ابن لهیعة وَهُوَ ثِقَةٌ لٰکِنَّهٗ سَیِّئُ الْحِفْظِ‘

اس کے بعد انھوں نے’’صحیح مسلم‘‘کی وہی روایت ذکر کی ہے جس پر مختصر صحیح مسلم للمنذری کے حاشیہ میں علامہ ذہبی رحمہ اللہ  کا کلام نقل کیا ہے اور ابو الزبیر کے عنعنہ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔جیسا کہ باحوالہ ہم پہلے نقل کر آئے ہیں۔ چنانچہ لکھتے ہیں:

’ وَلِحَدِیْثِ التَّرْجُمَةِ مُتَابِعٌ بِسَنَدٍ صَحِیْحٍ عَنْهُ وَهُوَ مَعْقَلُ بْنُ عُبَیْدِ اللّٰهِ الْجُزْرِیْ عَنْ اَبِی الزُّبَیْرِ عَنْ جَابِرٍ مَرْفُوْعًا بِلَفْظِمُسْلِم وَ مِنْ طَرِیْقِهِ الْبَغَوِیّ فِی شَرْحِ السُّنَّةَ وَ ابن حِبَّان وَ مَعْقَل هٰذَا فِیْهِ کَلَامٌ مِنْ قِبَلحِفْظِهٖ، قَالَ الْحَافِظُ فِی التَّقْرِیْبِ: صُدُوْقٌ یُخْطیُٔ فَقَدْ خَالَفَ ابْنَ لَهِیْعَةَ فِیْ قَوْلِهٖ عَنِ اَبِی الزُّبَیْرِ: أَخْبَرَهُ جَابِرٌ ، وَ قَوْلُهٗ: المَدِیْنَة، مَکَانَ مَکَّةَ وَ مِن الصعب ترجیح أحد القَوْلَیْنَ عَلَی الآخَر وَ لَعَلَّ الرَّاجِحَ الجَمع بَیْنَهمَا ‘(سلسلة الصحیحة ،ج:۶،ص:۱۰۵۳، ۱۰۵۴)

’’یعنی اس حدیث کا سند صحیح سے متابع ہے اور وہ معقل بن عبید اللہ عن ابی الزبیر عن جابر کی سند سے یہ الفاظ ہیں: ’لَا یَحِلُّ لِاَحَدٍ اَنْ یَّحْمِلُ بِمَکَّةَ السَّلَاحَ‘ جسے امام مسلم، بغوی اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ معقل میں حافظہ کی بناء پر کلام ہے، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  نے ’’تقریب‘‘ میں صدوق یخطی کہا ہے اوراس نے ابن لھیعۃ کی مخالفت کی ہے۔ ابن لھیعۃ ، ابوالزبیر سے ’اَخْبَرَهُ جَابِرٌ‘ کہتے ہیں اور ’’مکۃ‘‘ کی جگہ’’المدینۃ‘‘ کہتے ہیں۔ دونوں میں سے کسی ایک قول کو ترجیح دینا مشکل ہے اور شاید دونوں کو جمع کرنا راجح ہے۔‘‘

اس کے بعد دونوں کے شواہد ذکر کیے ہیں۔ اب بتائیے کہ اختلاف کے باوجود دونوں کو ایک دوسرے کا متابع کہنا چہ معنی دارد؟

ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں کہ امام مسلم رحمہ اللہ  نے تو حضرت جابر رضی اللہ عنہ  کی روایت ہی حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابن عباس کی روایت کی تائید میں بیان کی۔ تائید و متابعت کا وہ حکم نہیں جو احتجاج و استدلال کی روایت کا ہوتا ہے۔ تاہم ابن لھیعہ نے اس میں صراحت ِ سماع کی ہے گو متن میں کچھ فرق ہے۔ نیز اس سے یہ بات بھی مترشح ہوتی ہے کہ علامہ البانی رحمہ اللہ  بھی بالآخر ’’صحیح مسلم‘‘ کی اس روایت کو درست قرار دیتے تھے۔ ’’صحیح الجامع الصغیر‘‘ میں ذکر کرنا بھی اس کا مؤید ہے۔

امام مسلم رحمہ اللہ کے علاوہ امام ابن حبان نے بھی اپنی’’ الصحیح‘‘ میں یہ روایت ذکر کی اور ’’مقدمة الصحیح‘‘ (ص:۹۰) میں انھوں نے صراحت کی ہے کہ میں نے مدلسین کی وہی روایات اپنی اس کتاب میں ذکر کی ہیں جن میں سماع ثابت ہے۔ ان کی یہ وضاحت کرنا بھی دلیل ہے کہ اس روایت میں ابو الزبیر کاسماع ثابت ہے۔

اس طرح علامہ البانی رحمہ اللہ  نے دوسری حدیث کو بھی ’الصحیحۃ‘ (رقم:۲۳۶) میں ذکر کیا ہے۔ چنانچہ ’’مسند احمد‘‘ وغیرہ کے حوالہ سے اوّلاً حضرت ابوکبشہ رضی اللہ عنہ  کی روایت نقل کی اور اس کے راویوں کو ثقہ و صدوق قرار دیا اور بطورِ شاہد’’صحیح مسلم‘‘وغیرہ سے حضرت جابر رضی اللہ عنہ  کی حدیث نقل کی اور کہا:

’ و ابو الذبیر مُدَلِّسٌ وَقَد عَنْعَنه لٰکِنْ حَدِیْثُهٗ فِی الشَّوَاهِدِ لَا بَأْسَ بِهٖ لَا سِیَمَا وَقَدْ صَرَّحَ بِالتَّحْدِیْثِ فِی رِوَایَةِ ابْنِ لَهِیْعَةَ عَنْه ، وَ اَمَّا مُسْلِمٌ فَقَدْ اِحْتَجَّ بِهٖ ‘(سلسلة الصحیحة ،رقم:۲۳۵)

’’ابو زبیر مدلس ہے اور اس نے اسے معنعن ذکر کیا ہے ، لیکن اس کی حدیث شواہد کے طور پر ذ کر کرنے میں کوئی حرج نہیں خصوصاً جب کہ ابن لھیعۃ کی اس سے روایت میں تصریح سماع ہے اور امام مسلم نے اس سے استدلال کیا ہے۔‘‘

بتلایے! ابن لھیعہ کی بیان کردہ صراحت ِ سماع کو قبول کیا ہے یا نہیں؟ علامہ البانی رحمہ اللہ  کا اپنا ذوق تھا۔ محدثین سابقین کے برعکس بسا اوقات پہلے ضعیف اور متکلم فیہ سند ذکر کرتے ہیں۔ پھر اس کے متابع اور شواہد جو اس سے اعلیٰ سند سے مروی ہوں، ان کو نقل کرتے چلے جاتے ہیں اور یوں بالآخر اس کی صحت کا فیصلہ صادر فرماتے ہیں۔ جیسا کہ اسی روایت میں آپ دیکھ رہے ہیں۔ ابوکبشہ رضی اللہ عنہ  کی روایت کو اوّلاً ذکر کیا۔ ازہر بن سعید تابعی کو ابن حبان اور العجلی کے قول کی بناء پر ثقہ قرار دیا۔ حالانکہ وہ خود ان کو متساہل قرار دیتے ہیں۔ اور کئی مقامات پر ان کی توثیق کی تردید کردیتے۔ جس کی تفصیل کا یہ محل نہیں۔ پھر اس کی تائید میں بطورِ شاہد ’’صحیح مسلم‘‘ کی حدیث ذکر کی ہے۔

اسی طرح ’اَلصحیحۃ‘(رقم:۲۳۶۸) میں پہلے ’اَلْمَنتخب، مسند عبد بن حمید‘ سے ’اَلْمَرئُ فِیْ صَلَاتِهٖ مَا انْتَظَرَهَا ‘، ’ حماد بن شعیب الحمانی عن ابی الزبیر عن جابر‘ کی سند سے ذکر کی اورفرمایا کہ یہ سند ضعیف ہے کیونکہ ابو زبیر مدلس اور حماد ضعیف ہے۔ پھر فرمایا کہ اس کی متابعت ثابت ہے۔ چنانچہ اس کے بعد ’ابن لهیعة ثَنَا اَبو الزُّبَیْرِ قَالَ : سَاَلْتُ جَابِرًا ‘ کی سند سے یہ روایت ذکر کی ہے اور فرمایا: ’رِجَالُهُ ثِقَاتٌ غَیْرَ اَنْ ابْنَ لِهیَعَة سَیِّئُ الْحِفْظِ‘ اس کے راوی ثقہ ہیں سوائے ابن لھیعہ، کہ وہ سیء الحفظ ہے۔ پھر فرماتے ہیں، لیکن اس کی متابعت منقول ہے چنانچہ اس کے بعد ’’مسند احمد‘‘ سے ’الاعمش عَن اَبِی سُفْیَانَ عَنْ جَابِرٍ‘ کی مسند سے اسے ذکر کیا ور فرمایا :’هٰذَا اِسْنَادٌ صَحِیْحٌ عَلٰی شَرْطِ مُسْلِمٍ‘ کہ اس کی سند شرط مسلم پر صحیح ہے۔

غور فرمائیے بات کیا ہوئی اور پھر ابن لھیعۃ کی بیان کردہ صراحت سماع کو قبول کیا یا نہیں؟ اگر تصریح سماع کا اعتبار نہیں تو ابن لھیعہ کے حافظہ کی کمزوری کو ہی ذکر کیوں کیا؟ ابو زبیر کی تدلیس کا ذکر بھی ہونا چاہیے تھا۔

اس ساری تفصیل سے یہ بات نصف النہار کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے ’’صحیح مسلم‘‘ کی جن تین روایات کے بارے میں ابو الزبیر کی تدلیس کی بناء پر عدم اطمینان کا اظہار فرمایا وہ تینوں صحیح ہیں، بلکہ ان میں سماع بھی ثابت ہے۔ جب علامہ ذہبی رحمہ اللہ  ایسے نابغہ شخصیت کا یہ خدشہ درست نہیں تو متاخرین میں سے کسی کا ایسا حکم کیونکر قابلِ اعتناء ہو سکتا ہے۔ امام مسلم رحمہ اللہ  کا تتبع بہرحال مقدم ہے۔ صحیحین میں مختلط اور متکلم فیہ راویوں کی احادیث کا انتخاب اور ان کے بارے میں امام بخاری و مسلم کی احتیاط پر اعتمادہے تو مدلسین کے بارے میں ہی بے اعتمادی کیوں ہے ؟ متاخرین میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ وغیرہ نے مدلسین کی معنعن روایات میں سماع کا تتبع کیا ہے تو یہ مزید اطمینان قلب کے طور پر ہے ، ان کو ضعیف یا نا قابلِ اعتماد ٹھہرانے کی بناء پر نہیں۔

حدیث مسنہ:

حدیث مسنہ ہی کو لیجیے امام مسلم رحمہ اللہ کے علاوہ امام ابن خزیمہ نے بھی اپنی ’’ الصحیح‘‘ (ج:۴، ص:۲۹۵)میں نیز ’’المنتقی ابن الجارود(رقم: ۹۰۴) ’’ابوعوانہ‘‘ (ج:۵،ص:۲۲۷) ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ، مسند احمد ابو یعلی اوربیہقی میں موجود ہے۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے امام ابن حزم رحمہ اللہ کی اقتداء میں اسے ابو الزبیر کی تدلیس کی بناء پر ضعیف قرار دیا ۔ علامہ البانی رحمہ اللہ  کے تلامذہ بھی عموماً انہی کی تحقیق پر اعتماد کرتے ہوئے اسے ضعیف قرار دیتے ہیں۔

خود ہیچمدان ایک عرصہ پہلے ان کا ہمنوا تھا۔ چنانچہ انتیس سال قبل فروری ۱۹۷۲ء کے دو شماروں میں انہی خیالات کا اظہار کیا گیا تھا۔ مگر مزید تتبع و تحقیق سے ان خیالات سے اب اتفاق نہیں۔ اس لیے کہ امام ابوعوانہ نے اپنی ’’مسند‘‘ میں جو دراصل ’’صحیح مسلم‘‘ پر مستخرج ہے۔ ابو الزبیر کے سماع کی صراحت کی۔ چنانچہ زہیر عن ابی الزبیر کی مختلف اسانید ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

’وَ رَوَاه محمد بن بکر عن ابن جریج حَدَّثَنِیْ اَبُو الزُّبَیْرِ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرًا یَقُوْلُ، وَ ذَکَرَ الْحَدِیْث ‘(ابوعوانه،ج:۵،ص: ۲۲۸)

بتلایے تصریح سماع اور کسے کہتے ہیں؟

مگر یہاں دو اشکال ہیں، جن کا اظہار علامہ البانی رحمہ اللہ نے ’الصَّحِیحۃ‘(سلسلۃ الصحیحۃ  (ج:۶،ص:۴۶۴،رقم:۲۷۰۷) کے تحت کیا ہے۔ ایک یہ کہ یہ سند معلق ہے۔ جس سے استدلال صحیح نہیں، دوسرا یہ کہ یہاں غالباً ناقل یا طابع سے سہو ہوا ہے۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے حدیثِ مسنہ کے بعد ایک دوسری حدیث ’محمد بن بکر عن ابن جریج حَدَّثَنِیْ اَبُو الزُّبَیْرِ اَنَّهُ سَمِعَ جَابِرًا‘ کی سند سے ذکر کی۔ امام ابو عوانہ نے اس کی تخریج کی ہے اور پہلی سند ناقل یا طابع کی غلطی سے ساقط ہو گئی ہے۔ حدیث ِ مسنہ کے ساتھ اس کا تعلق نہیں۔

بلاشبہ دوسری بات میں وزن ہے بشرطیکہ صحیح نسخہ سے اس کی تائید ہو۔ انھوں نے فرمایا ہے کہ ظاہر یہ کے مکتبہ میں اس کا نسخہ موجود ہے۔ اگر بات ویسی ہی ہے جیسے علامہ البانی رحمہ اللہ نے کہی ہے تو یہ صراحت ِ سماع درست نہیں۔ لیکن جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے تو وہ محل نظر ہے کیونکہ ابو عوانہ ہی نہیں ’’صحیح بخاری‘‘ میں بھی امام بخاری رحمہ اللہ  صراحتِ سماع کے لیے معلق روایت ذکر کرتے ہیں اور اس کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:’لَمْ اَجِدْہُ ‘ مجھے یہ روایت نہیں ملی۔ مثلاً ’بَابُ لَا یَسْتَنْجِی بِرَوْث‘ میں جو ’’زہیر عن ابی اسحاق‘‘ کی سند سے روایت نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

’ وَ قَالَ اِبْرٰهِیْمُ بْنُ یُوْسُفَ عَنْ اَبِیْهِ عَنْ اَبِیْ اِسْحَاقَ حَدَّثَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ ‘

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اور علامہ عینی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ یہ تعلیقاً روایت ابو اسحاق کی تدلیس پر اعتراض کے جواب میں صراحت سماع کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے ذکر کی ہے ۔ مگر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:’لَمْ اَجِدْھَا‘ کہ اس روایت کو میں نے نہیں پایا۔ (مقدمةفتح الباری،ص:۲۲)

اس لیے اگر ایسی معلق روایت کی سند نہ بھی ملے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

اس قیل و قال کے علاوہ امام مسلم رحمہ اللہ  امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ ، ابن الجارود کا اپنی کتابوں میں اس روایت کو ذکر کرنا اس کی صحت کی دلیل ہے۔ متاخرین میں سے کسی کو اس میں ابوالزبیر کی تصریح سماع نہیں ملی تو ان کی یہ کوشش چند قلمی اور مطبوعہ کتابوں تک محدود ہے۔ ان کے اس تتبع کو متقدمین کی تحری و تتبع سے کوئی نسبت نہیں، جنھوں نے لاکھوں احادیث سے ’’الصحیح‘‘ کا انتخاب کیا اور بحیثیت مجموعی امت نے ان پر اعتماد کیا۔ علامہ البانی رحمہ اللہ بلاشبہ عبقری انسان تھے اور حدیث کی خدمت میں ان کی مساعی لازوال ہے۔ مگر ان کا کچھ اپنا اسلوب ہے۔ صحیحین کی ارجحیت کے بھی وہ قائل نہیں۔ اسی لیے وہ ان کی روایات کو اوّلیت نہیں دیتے بلکہ اپنی تحقیق و تنقید میں بسا اوقات بلا دریغ ان پر حرف گیری فرماتے ہیں۔

علامہ البانی رحمہ اللہ  سے قبل بھی بعض حضرات نے ’’صحیحین‘‘ کی بعض روایات پر تنقید کی ہے۔ مگر ہر دور میں بحمد اللہ ان کا دفاع بھی ہوتارہا۔ امام دارقطنی رحمہ اللہ  کے اعتراضات کا جواب علامہ نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے دیا۔ حافظ زین الدین عبدالرحیم العراقی نے اس سلسلے میں’اَلْاَحَادِیْثُ الْمُخرجة فِی الصَّحِیْحَیْنِ اَلَّتِیْ تکَلَّمَ فِیْهَا بِضْعْفٍ وَ اِنْقِطَاعٍ‘ کے نام سے مستقل کتاب لکھی، علامہ عراقی کے فرزند ارجمند حافظ ولی الدین ابو زرعہ احمد بن عبدالرحیم نے بھی ’الْبَیَان وَالتَّوْضِیْح لِمَن خَرَّجَ لَه فِی الصَّحِیْحِ وَ قَدْ مَسَّ ضَرب مِنَ التَّجْرِیْحِ‘ کے نام مستقل رسالہ لکھا۔ گویا صحیحین کی بعض روایات پر تنقید بھی ہوئی مگر بحمد اللہ اس کا دفاع بھی ہر دور میں ہوتا رہا۔ جس کی تفصیل سے بحمد اللہ یہ ناکارہ بہت حد تک باخبر ہے۔

’’صحیحین ‘‘ میں مختلط راویوں کی روایات مروی ہیں۔ عموماً محدثین متاخرین کے ہاں تو صحیحین کی عظمت اور ان کے مصنفین کی تحقیق و تنقیح کی بناء پر یہ قاعدہ ہی قرار پاجائے کہ مختلطین سے روایت کرنے والوں نے اختلاط سے پہلے سنا ہے۔ اور اگر ثابت ہو جائے کہ راوی نے اختلاط کے بعد سنا ہے تو اس کے بارے میں یہ طے پا جائے کہ امام بخاری و مسلم نے ان کی احادیث کو منتخب کیا ہے اور جس کو صحیح سمجھا اس کو ’الصَّحیح‘ میں درج کیا ہے۔ جیسا کہ ’’ہدی الساری‘‘ (ص:۴۰۶) میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اور صحیح ابن حبان کے مقدمہ  (ج:۱،ص:۹۰) میں امام ابن حبان نے صراحت کی ہے۔ جس کی تفصیل ’’توضیح الکلام‘‘ (ج:۲،ص:۴۶۶۔ ۴۶۹)میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ جب مختلط راوی کے بارے میںیہ فیصلہ ہے تو مدلس کے بارے میں بھی اسی اصول کے مطابق فیصلہ ہونا چاہیے ۔ کسی متاخر کا صراحت سماع نہ ملنے پر انقطاع کا حکم اس کااپنا فیصلہ ہے۔ شیخین کا تتبع و تفتیش بہرحال ان سے مقدم ہے اور صحیحین پر اس قسم کی تنقید قطعاً خوش آئند نہیں۔(مولانا ارشاد الحق اثری) (۲۲ جون ۲۰۰۱ء)

(۳) (از مولانا سید محمد قاسم شاہ، سندھ)

جناب حافظ ثناء اللہ مدنی صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

امید ہے کہ مزاج عالی مع الخیر ہوں گے۔ پہلے ایک جواب ارسال کر چکا ہوں اب دوسرے سوال کے متعلق یہ تحریر ارسال خدمت کر رہاہوں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ قبول فرمائے۔ آمین۔

میں اب بھی اپنے اسی موقف پر قائم ہوں کہ ’’صحیحین‘‘ کا جو مرتبہ و مقام ہے وہ کتب احادیث میں کسی اور کا نہیں تب ہی تو جمہور علمائے امت کی طرف سے ان کو  تلقی بالقبول حاصل ہے ورنہ ان میں ایسے بہت سے رواۃ ہیں جن پر کلام ہوا ہے اور آپ بخوبی یہ علم رکھتے ہیں کہ کتنے ہی ایسے رواۃ ہیں جو دوسری کتب احادیث میں وارد ہوں تو ان کی روایت ضعیف ہوتی ہے، اگر وہ رواۃ ’’صحیحین‘‘ میں وارد ہوں تو ان کی روایات صحیح ہوتی ہیں اور ان کے تذکرے کی میں سمجھتا ہوں کہ ضرورت نہیں۔ اسی طرح ’’صحیحین‘‘ میں کتنے ہی ایسے مدلسین روایت کرتے ہیں جنھوں نے وہاں سماع کی تصریح نہیں کی۔ لیکن اجماع امت نے ان سب کو قبولیت کا درجہ دیا ہے۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ پوری امت ہی غلطی پر ہو اور ان کو جو قبولیت کا درجہ دیا ہے تو بھی سوچ سمجھ کر اور ماہرین نقاد نے پوری طرح پرکھ کر دیا ہے۔

اگر آپ یہ فرمائیں کہ ایسی اکثر روایات کا متصل ہونا دوسرے مقامات پر یا دوسری کتب احادیث میں ثابت ہوچکا ہے تو میں یہ عرض کروں گا کہ صحیحین پر جو مستخرجات لکھے جا چکے ہیں وہ اب تک کتنے منظر عام پر آچکے ہیں؟ ایک دو کے علاوہ باقی سب ہی ابھی تک نظروں سے پوشیدہ ہیں، جب سارے ہی منظر ِ عام پر آجائیں گے پھر ہی کسی حتمی فیصلے کے متعلق سوچا جا سکتا ہے اور موجودہ حالات میں جب کہ ہمارے یہاں وہ پورا مواد ہی موجود نہیں ہم ان پر ضعف کا حکم کس طرح لگا سکتے ہیں؟

حقیقت ان روایات پر ضعف کا حکم لگانا میرے علم کی کمی تو ہو سکتی ہے یعنی اپنی تحقیق کے مطابق جسے میں ضعیف سمجھ رہا ہوں وہ درحقیقت ضعیف نہ ہو۔ بلکہ اس کی وجہ میرے علم کا ناقص ہونا ہو جس کا مجھے ادراک نہیں ہو رہا کیونکہ وہ کتابیں جن میں ان روایات کے متصل ذکر ہونے کا قوی امکان ہے میرے سامنے نہیں۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی وجوہ ہیں جن کی بناء پر علمائے امت نے ان کو قبول کیا ہے اور ان پر ضعیف کا حکم لگانے سے احتراز کیا ہے۔

جیسا کہ امام ذہبی ’’میزان الاعتدال‘‘ (ج:۱،ص: ۶۴۱) پر خالد بن مخلد القطوانی کے ترجمہ میں ایک حدیث ذکر کرتے ہیں کہ :’مَنْ عَادَی لِیْ وَلِیًّا‘ یہ حدیث صحیح البخاری میں ہے۔ پھر فرماتے ہیں:’فَھٰذَا حَدِیْثٌ غَرِیْبٌ جِدًا ، لو لاھیبۃ الجَامِع الصَّحِیْحِ فِی لَعدوہ فِی منکرات خالد بن مخلد‘

اسی طرح ’’میزان الاعتدال‘‘ (ج:۴،ص:۳۹) پر ابو الزبیر المکی کے ترجمہ میں رقمطراز ہیں کہ:

’و فی صحیح مسلم، عدة احادیث مما لم یُوْضَح فِیْهَا ابو الزبیر السَّمَاع عَنْ جَابِرٍ وَهِیَ مِنْ غَیْر طَرِیْقَ اللَّیْثِ عَنْهُ فَفِی الْقَلْبِ مِنْهَا شَیْئٌ ۔ مِنْ ذٰلِكَ حَدِیْثٌ لَا یَحِلُّ لِأََحَدٍ حمل السَّلَاح بِمَکة و حدیث رأی علیه الصلاة والسلام اِمْرَأَة فَاعَجبته فاتی اهله زینب و حدیث النهی عن تَجْصِیْصِ الْقُبُوْرِ وَغَیر ذلك ‘

دیکھئے امام ذہبی رحمہ اللہ جیسے نقاد اور ماہر محدث کو بھی ان روایات کو ضعیف کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔ اپنے تذبذب کا اظہار تو فرماتے ہیں لیکن ان پر ضعف کا حکم لگانے سے احتراز کرتے ہیں اور آج کوئی ’’صحیحین‘‘ کی کتر بیونت پر لگا ہوا ہے۔ صحاح ستہ کا بھرم تو پہلے ہی ٹوٹ چکا۔ آئندہ بھی اگر یہی پوزیشن رہی تو ضعیف البخاری و ضعیف المسلم بھی بن جائیں گے اس لیے بہتری اسی میں ہے کہ تحقیق کو تو جاری رکھا جائے مگر ان پر قینچی چلانے سے احتراز کیا جائے اور جس طرح جمہور علمائے امت نے ان کو قبول کیا ہے ہم بھی ان کو قبول کریں۔ جیسا کہ امام نووی مقدمہ ’’شرح مسلم‘‘ (ج:۱،ص:۳۳) پر رقمطراز ہیں کہ:

’وَاعلَمْ اَن ما کَانَ فِی الصَّحِیْحَیْنِ عَنِ الْمُدَلِّسِیْنِ بِعَنْ وَ نَحْوِهَا فَمَحْمُوْلٌ عَلٰی ثبوت السَّمَاعِ مِنْ جِهَةٍ اُخْرٰی ‘

اسی طرح’’تقریب‘‘ ،ص:۹ پر رقمطراز ہیں:

’ وَ مَاکَانَ فِی الصَّحِیْحَیْنِ وَ شِبْهِهَا عَنِ الْمُدَلّسِیْنَ بِعَْن مَحْمُوْلٌ عَلٰی ثبوت السَّمَاعِ مِنْ جِهَةِ اُخْرٰی ‘

اسی طرح ’’شرح مسلم‘‘(ج:۱،ص:۲۰) پر رقمطراز ہیں:

’ وَ اِنَّمَا یفترق الصَّحِیْحَانِ عَنْ غَیْرِهِمَا مِنَ الْکُتُبِ فِی کَوْنِ مَا فِیْهِمَا صَحِیْحًا لَا یُحْتَاج الی النَّظرِ فِیْه وَ مَا کَانَ فِیْ غَیْرِهِمَا لَا یعمل بِه حَتّٰی یَنْظُرَ وَ تَوجد فِیهِ شُرُوْطِ الصَّحِیْحِ ‘

اسی طرح حافظ سیوطی’’الفیہ‘‘ السیوطی (ص:۳۴) پر فرماتے ہیں:

’ و ما اَتَانَا فِی الصَّحِیْحَیْنِ بِعَنْ فَحمله علٰی ثُبُوْتِهٖ قمن‘

اور اس کے شرح میں حافظ احمد محمد شاکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’ وَ قَدْ وَقَعَ فِی الصَّحِیْحَیْنِ اَحَادِیثٌ کَثِیْرَة مِنْ رِوَایَة بعض المدلِّسِیْنَ الثَّقَات وَ لَم یَصرحوا فیها بالسَّمَاع کقتادة وَ سفْیَانَ الثَّوْرِی وَ سُفْیَانَ بْن عُیَیْنَةَ وَ عَبْدُ الرَّزَّاق وَهُوَ مَحْمُوْلٌ عَلٰی ثُبُوْتِ السَّمَاعِ مِنْ جِهَةٍ اُخْرٰی غَیْرَ الَّتِیْ ذکرها صَاحِبُ الصَّحِیْحِ ‘

اسی طرح شیخ الاسلام سید محب اللہ الراشدی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

’’صحیحین کے متعلق تو آپ کا اور ہمارا یہی حسن خلق ہے کہ ان میں جو بھی رواۃ مدلسین ہیں ان کا عنعنہ و نحوھا اتصال پر محمول ہیں۔‘‘ (تسکین القلب المشوش،ص:۴۳)

اگر اور بھی حوالے پیش کیے جائیں تو مضمون خاصا طویل ہوجائے گا اس لیے ان پر اکتفاء کرتاہوں۔ دوسری بات یہ کہ ان محدثین کرام اور ماہرین نقاد نے ان کو ایسے ہی قبول نہیں کیا، بلکہ وہ ہیں ہی قبول کرنے کے لائق۔ جیسا کہ امام مسلم رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

’ عَرضت کتابی هذا عَلٰی ابی زرعة الرازی فکل ما اشار الیه ان له علة ترکته و کل ما قال: انه صحیح و لیس له علة خرجتة ‘(مقدمة شرح النووی،ج:۱،ص:۱۵، صیانة صحیح مسلم،ص:۷۸،۹۸)

و قال اَیْضًا فِی صحیح مسلم بِشَرح النووی ،ج:۴،ص:۱۲۲ : مَا وَضَعْتُ شَیْئًا فِیْ کِتَابِیْ هٰذَا الا بِحجة و مَا اَسْقَطت مِنه شَیْئًا اِلَّا بِحُجَّة ۔ لَیْسَ کل شئی عندی صحیح وضعته انما وضعت ما اجمعوا علیه. اھ‘

اور ’مَا اَجْمَعُوْا‘ سے مرا کون ہیں؟ اس کی تصریح شیخ الاسلام سراج الدین البلقینی نے ’’محاسن الاصلاح‘‘،ص:۹۱ پر اس طرح کی ہے:

’ اراد مسلم بقولہ ’ مَا اَجْمَعُوْا عَلَیْہِ‘ اربعۃ احمد بن حنبل ، و یحییٰ بن معین و عثمان بن ابی شیبۃ و سعید بن منصور الخراسانی۔

تو ایسے اماموں کی نظروں سے یہ احادیث بھی گزری ہوں گی جن میں عنعنہ ہے۔ تو ان نقاد ماہرین اماموں کی نظروں سے یہ علتیں کیسے پوشیدہ رہیں۔ اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ انھوں نے ان کو ان علتوں سے پاک سمجھا تب ہی ان کو قبول کیا۔ جب ایسے اماموں نے ان کو قبول کیا ہے تو ہم جیسے ان روایات کو ضعیف کرنے کی جسارت نہیں کر سکتے۔

باقی رہا ’لَا تَذْبَحُوْا اِلَّا مُسِنَّة…الخ‘ کی حدیث میں ابوالزبیر کا حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے سماع تو مسند ابی عوانہ(ص:۲۲۷۔۲۲۸،ج:۵) پر اس کی صراحت موجود ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:

’ رَوََاهُ مُحَمَّدُ بْنَ بَکْرٍ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ حَدَّثَنِیْ اَبُو الزَّبَیْرِ اَنَّهُ سَمِعَ جَابِرًا یَقُوْل ، وَذَکَرَ الْحَدِیْث ‘

تو یہاں ابو الزبیر کے سماع کی تصریح ہوگئی، ان شاء اللہ سبحانہ و تعالیٰ اب کوئی اشکال نہ ہوگا۔ (ابواحسان اللہ محمد قاسم شاہ) (۲۲ جون ۲۰۰۱ء)

حدیث مسنہ کے راوی ابوالزبیر(تحقیق کا دوسرا رخ) (از جناب مولانا عبدالرشید راشد)

یکم ربیع الاوّل ۱۴۲۲ھ کے ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ میں’’صحیح مسلم‘‘کی ایک روایت سے متعلق ابوالزبیر مکی کی تدلیس کے حوالے سے میرا ایک مضمون شائع ہوا ، جس کی تفصیل مذکورہ پرچہ میں دیکھی جا سکتی ہے۔

اس پر ہمارے انتہائی مخلص و مہربان دوست حصرت مولانا ارشاد الحق صاحب اثری(متعنا اللہ بطولہ حیاتہ) نے تفصیلی تعاقب فرمایا ہے جو ’’الاعتصام‘‘ کے حالیہ شمارہ نمبر ۲۳ میں شائع ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت کو تخریج ِ حدیث اور رواۃ پر جو گہری بصیرت عطا فرمائی ہے وہ انہی کا حصہ ہے۔ اَللّٰهمَّ زِدْ فَزِدْ

زیر بحث ’’حدیث مسنہ‘‘ میں ابو الزبیر کی تدلیس کے جواب میں علامہ اثری حفظہ اللہ نے دو دلیلیں ذکر کی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ:

۱۔         مسند ابی عوانہ (۲۲۸/۵) میں ابو الزبیر کے حصرت جابر رضی اللہ عنہ  سے سماع کی تصریح موجود ہے۔

۲۔        ائمہ متقدمین بالخصوص شیخین کی اسانید و رجال پر وسعت ِ نظری کے پیش نظر ان کا تتبع و تفتیش متاخرین پر مقدم ہے۔

اوّل الذکر دلیل پر حضرت اثریd نے علامہ البانی رحمہ اللہ  سے دو اشکال ذکر کیے ہیں جن کی تفصیل سلسلہ صحیحہ(۶/۴۶۴۔۴۶۵) میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ جن میں سے ثانی الذکر اشکال کو قوی قرار دیا ہے بشرطیکہ صحیح نسخے سے اس کی تائید ہو۔

البتہ اوّل الذکر اشکال کہ ’’مسند ابی عوانہ کا وہ طریق جس میں سماع کی تصریح ہے، معلق ہے اور معلق ہونے کے اعتبار سے لائق اعتناء نہیں۔‘‘ فاضل ممدوح نے اس اشکال کے دفاع کی بھرپور کوشش کی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ بھی بعض اوقات تصریح سماع کے لیے معلق روایت ذکر کرتے ہیں جب کہ اس کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’لَمْ اَجِدْہُ‘ کہ مجھے یہ سند موصول نہیں ہو سکی۔ نتیجہ یہ اخذ کیا ہے کہ سماع کی تصریح کے لیے معلق روایت بھی کافی ہے اور اس کے لیے’’صحیح بخاری‘‘’بَابُ لَا یَسْتَنْجِیْ بِرَوْثٍ‘ سے ایک مثال ذکر کی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ  نے زہیر عن ابی اسحاق کے طریق سے حدیث نقل کرکے سماع کی تصریح کی طرف اشارہ کرنے کے لیے فرمایا ہے:

’ وَقَالَ اِبْرَاهِیْمُ بْنُ یُوْسُفَ عَنْ اَبِیْهِ عَنْ اَبِیْ اِسْحَاقَ حَدَّثَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰن‘

اس تعلیق پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  رقمطراز ہیں: ’لَمْ اَجِدْھَا‘ اس لیے ایسی معلق روایت کی سند نہ بھی ملے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

اس پر گزارش ہے کہ اولاًّ:’’صحیح بخاری‘‘میں جو تعلیقات بصیغہ جزم ہیں، ان کے متعلق ائمہ محدثین کی رائے یہ ہے کہ جن رواۃ سے یہ تعلیقاً مذکور ہیں۔ امام بخاری کے التزام صحت اور تحری و تتبع کے پیش نظر ان رواۃ سے یہ یقینا صحیح ثابت ہیں۔ اگرچہ وہ موصول ثابت نہ بھی ہوسکیں اور ان رواۃ کے بعد سند کا یہ حصہ مذکور ہے۔ اس پر غور کرلینا چاہیے اور یہ رائے بلاشبہ صحیح ہے لیکن یہ حکم زیادہ سے زیادہ صحیح کے ساتھ خاص ہے۔ صحیحین کی تعلیقات کو مثال بنا کر دیگر کتب احادیث کی تعلیقات پر اعتماد بہرحال محل نظر ہے۔ خواہ وہ تعلیقات تصریح سماع کے لیے ہی ہوں۔

ثانیاً:’’صحیح بخاری‘‘کی مذکورہ تطبیق کے علاوہ بھی وہ حدیث یقیناً صحیح ہے۔ اس حدیث کی صحت کا انحصار صرف اس تعلیق پر ہی نہیں بلکہ صحت کے دیگر مرجحات بھی موجود ہیں جن کی تفصیل مقدمہ فتح الباری و مسند احمد بن حنبل کی تحقیق میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے اور ان مرجحات پر مولانا اثری یقینا مطلع ہیں۔ لہٰذا حضرت کا ’’صحیح بخاری‘‘ کی تعلیقات کو بنیاد بنا کر مسند ابی عوانہ کی تعلیق پر اعتماد کرنا محل نظر ہے۔

فاضل اثری کی دوسری دلیل یہ ہے کہ ’’متقدمین کی وسعت ِ نظری کے پیش نظر بالخصوص شیخین کی تحری و تتبع متاخرین پر مقدم ہے۔‘‘

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ متقدمین رجال و اسانید پر وسیع النظر تھے۔ اور ذخیرۂ حدیث پر کامل ادراک تھا اور متاخرین کی تحقیق چند قلمی اور مطبوعہ کتابوں تک محدود ہے۔ لیکن صرف اس حسن ظن کی بنیاد پر متاخرین کی تحقیق کو قابل اعتنا نہ سمجھنا قرین انصاف نہیں۔

بالعموم متاخرین تو کجا دورِ حاضر کے بعض فضلاء کو مَیں ذاتی طور پر جانتا ہوں جو رجال و اسانید پر انتہائی بلیغ النظر ہیں، جن میں میرے نزدیک حضرت اثری حفظہ اللہ بھی ہیں۔ کیا متقدمین کے کامل وسیع النظر ہونے کے باوجود متاخرین کے بعض اہم افادات نہیں ہیں؟ علوم کا کوئی بھی طالب علم اس کا انکار نہیں کر سکتا۔ حضرت اثری کا یہ تعاقب ہی اس پر شاہد عدل ہے کہ علامہ ذہبی جیسی عبقری شخصیت نے کامل وسیع النظر ہونے کے باوجود ابوالزبیر کے عنعنہ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے جن تین احادیث کو بطورِ مثال ذکر کیاہے۔ حضرت اثری نے خالص علمی انداز میں تحقیق کرکے ثابت کیا ہے کہ یہ تینوں روایات صحیح ہیں اور ان میں تصریح سماع موجود ہے۔ اس کے باوصف یہ سمجھنا کہ متاخرین کی کوشش صرف چند قلمی و مطبوعہ کتب تک محدود ہے۔ فیاللعجب

آخر حسن ظن کی بھی کوئی حدہونی چاہیے۔ دورِ حاضر میںتحقیق و تفتیش کے جو وسائل میسر ہیں متقدمین کے ہاں ان کا تصور بھی نہیں۔ دورِ حاضر کی کوئی تحقیق جو حقائق کی روشنی میں ہو، اگر متقدمین کی تحقیق کے خلاف ہو تو وسعت ِ ظرفی سے اسے قبول کرنا چاہیے نہ کہ محض حسن ظن کی بنیاد پر اسے ناقابل التفات سمجھا جائے۔ (۲۹ جون ۲۰۰۱ء)

جواب علمی انداز میں ہی دیا جانا چاہیے! (ا ز شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ خان صاحب مدنی)

’’الاعتصام‘‘ کے شمارہ نمبر ۷،جلد:۵۳ کی اشاعت میں ’’قربانی کے ضروری مسائل‘‘ سے متعلق ایک فتویٰ میں، میں نے عقبہ بن عامر وغیرہ کی روایات کی روشنی میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ  کی ’’روایت مسنہ‘‘ جسے امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی ’’صحیح‘‘ میں نقل کیا ہے کو استحباب پر محمول کیا جو کہ جمہور اہل علم کا موقف ہے۔ اسی تناظر میں ضمناً میں نے شیخ البانی رحمہ اللہ سے اس کی عدمِ صحت نقل کی۔ میں نے اپنی طرف سے اس پر ضعف کا حکم قطعاً نہیں لگایا۔ ’’الاعتصام‘‘ کے شمارہ جات اس کے شاہد ہیں۔ شیخ البانی رحمہ اللہ  کی طرف سے تضعیف نقل کرنے سے مقصود صرف یہ تھا کہ مذکورہ علت کے رفع کے لیے اہل علم کو توجہ دلائی جائے۔ چنانچہ اس پر بعض علماء نے تحقیق فرمائی جس سے قارئین ’’الاعتصام‘‘ بھرپور مستفید ہوئے اور کئی علمی نکات سامنے آئے ان میں سے بطورِ خاص رفیق محترم جناب  مولانا ارشاد الحق صاحب اثری کا مضمون قابلِ ذکر ہے۔

حضرت مولانا ہماری جماعت کا عظیم قابلِ فخر سرمایہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے علم و فضل میں برکت فرمائے۔ آمین۔

مولانا کے مضمون کے بعض مندرجات سے اختلاف ممکن ہے لیکن مجموعی اعتبار سے آپ کی تحقیق نہایت علمی و متین انداز میں تھی جو نہایت قابلِ تحسین ہے۔ جب کہ مولانا ابوالاشبال احمد شاغف( غفراللہ لہ) ’’صحیحین‘‘ کے دفاع میں جذبات سے مغلوب ہو کر اعتدال اور توازن قائم نہ رکھ سکے اور فریق ثانی پر سوقیانہ انداز میں حملہ آور ہوئے اور انھیں اپنے تند و تیز جملوں کے نشتر سے مجروح کرتے چلے گئے ۔ اس پر انا للہ و انا الیہ راجعون۔ کے سوا کیا کہا جا سکتا تھا؟ جب حضرت خود ہی اپنے مضمون میں تلخی کے معترف ہیں تو قارئین کے حضرت کے متعلق کیا تاثرات ہوں گے؟

مولانا کا مضمون اس لائق نہیں کہ اس پر کچھ لکھا جائے بلکہ(اس نامناسب الفاظ کی وجہ سے) میرے نزدیک تو سرے سے اشاعت کے قابل ہی نہیں تھا مگر نہ جانے اصحاب’’ الاعتصام‘‘ کو اس میں کیا خوبی نظر آئی کہ علمی دیانت و امانت کے تقاضوں کے پیش نظر وہ اسے طبع کرنے پر مجبور ہو ئے۔

مذکورہ مضمون چونکہ میرے نام سے مکتوب ہے اور میرے مطلع ہونے کے بغیر ہی اسے شائع کردیا گیا۔ اس لیے مجھے چند سطور لکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اگر یہ رسالہ طبع ہونے سے قبل میرے مطالعہ میں آتا تو کم از کم قارئین کے نزدیک مولانا کی شخصیت محترم و مکرم ہی رہتی۔

علماء کا بعض مسائل پر اختلاف کرنا بعید از قیاس نہیں لیکن کیا اختلاف رائے کا تقاضا یہی ہے کہ فریق ثانی پر مسموم تیر چلائے جائیں؟ اگر تحقیق اسی کا نام ہے تو ایسی تحقیق کو سلام۔

اگر شیخ البانی کی تحقیق کو قابلِ اعتنا سمجھنے والے’’مقلدین‘‘ کی پھبتی کے حقدار ہیں تو حضرت شیخین کریمین کے ساتھ وابستگی میں انتہائی غلو سے کام لینے والے ’’مقلدین‘‘ کیوں نہیں؟ ﴿تِلْكَ اِذًا قِسْمَةً ضِیْزٰی﴾مجھے معلوم ہے کہ شیخ البانی رحمہ اللہ  سے شدید اختلاف رکھنے والے لوگ بھی اکثر انہی کی تحقیق کے محتاج نظر آئے ہیں۔" والفَضْلُ مَا شَهِدَتْ بِهِ الاَعْدَاء"

زیر بحث مسئلہ پر جو کچھ لکھا جا چکا ہے وہ کافی ہے۔ اسے مزید طول دینا مناسب نہیں، لہٰذا ’’الاعتصام‘‘ کو چاہیے وہ اسے یہیں موقوف کردے۔ البتہ اگر واقعتا کوئی مزید علمی تحقیق سامنے آئے تو اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔

آخر میں حضرات علماء سے مؤدبانہ التماس ہے کہ کسی کی تحقیق سے اختلاف رائے کا حق رکھتے ہوئے افراط و تفریط سے احتراز فرمائیں۔ خالص علمی اور حکیمانہ انداز میں شریک بحث ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین۔(۲۹ جون ۲۰۰۱ء)

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الصوم:صفحہ:384

محدث فتویٰ

تبصرے