السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
زید کو قربانی کا جانور خریدے ہوئے تقریباً ایک ہفتہ گزر گیا۔ دل میں خیال پیدا ہوا کہ کیوں نہ یہ جانور بیچ کر اس کی قیمت میں کچھ رقم اور ملا کر ایک اعلیٰ قسم کا بکرا خرید کر قربانی کیا جائے لہٰذا بکر ا فروخت کردیا گیا۔ بعد میں دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ قربانی کا جانور بیچنا درست نہ ہے۔ لہٰذا سودا پھر واپس کروایا گیا۔
الف۔ کیا قربانی کا جانور بیچ کر اُس سے اچھا جانور خریدا جا سکتا ہے؟
ب۔ جب کہ یہ بیع لا علمی میں ہوئی۔ کیونکہ ارادہ صرف اس سے اچھا جانور خریدنے کا تھا۔
ج۔ اگر خریدار بیع واپس نہ کرتا تو؟
د۔ اب جب کہ زید کو اپنا جانور واپس مل گیا ہے وہی قربانی کے لیے کافی ہے یا جس اعلیٰ جانور کا وہ ارادہ کر چکا ہے اُسے بھی وہ خرید کر قربانی کرے؟ (سائل: رانا محمد اقبال۔ساہیوال) (۲۵ اگست ۲۰۰۰ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قربانی کا جانور بہتر جانور کے ساتھ تبدیل کرنا جائز ہے۔ چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:
’ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِی الرَّجُلِ یَشْتَرِی الْأُضْحِیَّةَ أَوِ الْبَدَنَةَ فَیَبِیعُهَا وَیَشْتَرِی أَسْمَنَ مِنْهَا، فَذَکَرَ رُخْصَةً ۔‘ (المعجم الاوسط، للطبرانی،رقم:۱۹۶۷)
’’اس آدمی کے بارے میں (سوال ہوا) جو قربانی کا جانور فروخت کرکے بہتر جانور خریدنا چاہے تو فرمایا اس کی اجازت ہے۔اس روایت کو طبرانی نے ’’اوسط‘‘ میں ذکر کیا ہے۔ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ نے کہا اس روایت کے سب راوی ثقہ ہیں۔‘‘
اس کی تائید ترمذی اور ابوداؤد کی بھی بعض روایات سے ہوتی ہے لیکن ان میں کچھ کلام ہے۔ یہی مسلک امام احمد، عطائ، مجاہد، عکرمہ، مالک ، محمد بن حسن، اور امام ابوحنیفہ رحمہم اللہ کا ہے۔
’’ مختصر الحزقی‘‘ میں ہے:
’ وَ یَجُوْزُ اَنْ تُبَدَّلَ الْاَضْحِیَة اِذَا اَوْجبهَا بِخَیْرٍ مِّنْهَا‘ (مسئله رقم:۱۷۶۲)
’’قربانی کے واجب کے ہونے کے بعد اس سے بہتر جانور کے ساتھ تبدیلی جائز ہے۔‘‘
تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :’’ مرعاۃ المفاتیح‘‘ (۲/۳۶۸) بایں صورت(ب، ج، اور د )کے جوابات کی ضرورت نہیں رہتی۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب