لسلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جو آدمی فوت ہو گیا ہو، کیا اس کے نام سے قربانی کی جا سکتی ہے یا نہیں؟ جواز کی صورت میں اس قربانی کا گوشت گھر والے خود کھاسکتے ہیں یا نہیں؟ کچھ لوگ اللہ کے رسولﷺکے نام کی قربانی کرتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے پیروں کے نام مثلاً غوثِ پاک وغیرہ کی قربانی کرتے ہیں۔ کیا ان کی قربانی ہو جائے گی۔(زاہد غزالی۔ لاہور) (۸ فروری ۲۰۰۲ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
میت کی طرف سے قربانی کرنا درست عمل ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ نبی اکرمﷺ اپنی طرف سے اور اپنے اہل بیت کی طرف سے اور اپنی امت کے ہر اس شخص کی طرف سے قربانی کرتے تھے جو توحید و رسالت کی شہادت دیتا ہو۔ ظاہر ہے کہ آپﷺ کی امت سے بہت سے لوگ آپ کے زمانے میں موجود تھے اور کچھ ان کی زندگی ہی میں وفات پا چکے تھے۔ امت کی طرف سے قربانی میں زندہ اور فوت شدہ کی تفریق کے بغیر دونوں طرح کے لوگ داخل ہو جاتے ہیں۔ یہ حدیث محدثین نے متعدد سندوں سے نقل کی ہے۔ اس کی صحت میں بھی کوئی شک نہیں، یہ حدیث اس امر کی واضح دلیل ہے کہ میت کی طرف سے قربانی ہو سکتی ہے۔
’’شرح مسلم‘‘ میں امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے ان لوگوں نے استدلال کیا ہے جو قربانی اور اس کے ثواب میں اپنے علاوہ دوسرے کو بھی شریک کرنے کے قائل ہیں۔ یہی ہمارا اور جمہور کا مذہب ہے۔ میت کی طرف سے قربانی کے گوشت کا حکم عام قربانی کی طرح ہے، آپﷺ سے ثابت نہیں کہ آپﷺ نے بقدرِ حصۂ میت صدقہ کیا ہو۔ ابو رافع کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺوہ گوشت مساکین کو کھلاتے ، خود کھاتے اور اپنے اہل و عیال کو بھی کھلاتے تھے۔ ہاں البتہ اگر صرف میت کی طرف سے قربانی کی جا رہی ہو اور اس میں زندہ لوگ شریک نہ ہوں تو یہ صرف فقراء و مساکین کا حق ہے۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن مبارک نے فرمایا ہے۔
رسول اللہﷺ اور دیگر مکرم و معزز افراد امت کی طرف سے بطورِ خاص قربانی کرنا ثابت نہیں۔ اگر اس کی کوئی اصل ہوتی تو صحابہ کرام اور سلف صالحین اس کے زیادہ حق دار تھے لیکن ان سے کچھ ثابت نہیں ہو سکا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب