سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(495) کیا آدمی اپنی زرخرید یا گھریلو گائے کی قربانی میں شرکت کر سکتا ہے؟

  • 25610
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 786

سوال

(495) کیا آدمی اپنی زرخرید یا گھریلو گائے کی قربانی میں شرکت کر سکتا ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید نے ایک گائے پال رکھی ہے جو کہ زر خرید نہیں بلکہ گھریلو ہے۔ خوبصورت، بے عیب اور قربانی کے لائق ترین ہے۔ کچھ لوگوں نے زید سے مذکورہ گائے قربانی کے لیے خریدنے کو کہا اور اس کی قیمت ثالثی پانچ ہزار(=/۵۰۰۰) متعین ہوگئی۔ پھر (=/۵۰۰۰) کو سات حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ اب زید کہتا ہے کہ میں بھی اس گائے میں اپنا حصہ بصورتِ قربانی کرنا چاہتا ہوں۔ لہٰذا تم مجھے چھ حصوں کے پیسے دے دو۔ جب کہ زید کی اس گائے میں پہلے سے قربانی کے لیے کوئی نیت نہ تھی۔ وقتی طور پر تیار ہوا ہے۔ ہمیں تو بظاہر اس میں کوئی قباحت نظر نہیںآتی۔ تاہم شرعی فیصلہ مطلوب ہے جب کہ اس تقسیم عمل کو حافظ عبداللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ  نے اپنے فتاویٰ میں غیر درست و مشکوک کہا ہے۔

۲۔ زید نے ایک گائے خرید کی ہے اب اس میں بغیر منافع کے اصل رقم پر اپنا حصہ شامل کرکے قربانی کرسکتا ہے۔ یعنی دی ہوئی رقم کے ساتھ حصے ہوئے اپنا حصہ چھوڑ کر باقی اپنی اصل رقم سے چھ حصے وصول کرتا ہے۔ کیا یہ درست ہے؟

(ایک سائل ) (۲۲ ۔ اگست ۱۹۹۷ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 اصل بات یہ ہے کہ شرعی حدود و قیود دو قسموں پر مشتمل ہیں۔ ایک قسم وہ ہے جس میں شراکت کا جواز نہیں۔ جیسے کفارہ ٔ قتلِ خطا ہے۔ جرم میں تعدد افراد کی صورت میں ہر ایک کو مستقلاً کفارہ خطا ادا کرنا ہو گا اوردوسری قسم اس کے برعکس ہے۔ مثلاً کسی نے مسجد کے لیے قطعہ اراضی وقف کیا تو بعد ازاں بالفعل یہاں مسجد تعمیر ہو گئی۔ تو بلاشبہ واقف یہاں خود بھی نماز پڑھ سکتا ہے۔ اسی طرح زید کے زرخرید یا خود پالے ہوئے جانور میں بھی شراکت کا جواز ہے کیونکہ شریعت نے انتفاع کی اجازت دی ہے۔

رسول اللہﷺ نے بازار میں ایک شخص کو قربانی کا جانور لے جاتے دیکھ کر فرمایا:

’اِرْکَبْهَا‘(صحیح البخاری،بَابٌ: هَلْ یَنْتَفِعُ الوَاقِفُ بِوَقْفِهِ؟،رقم:۲۷۵۴)

’’اس پر سوار ہو جا۔‘‘

امام بخاری رحمہ اللہ  ’هَلْ یَنْتَفِعُ الوَاقِفُ بِوَقْفِهِ؟‘کے تحت رقمطراز ہیں:

’ وَقَدْ اشْتَرَطَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ : لاَ جُنَاحَ عَلَی مَنْ وَلِیَهُ أَنْ یَأْکُلَ مِنْهَا وَقَدْ یَلِی الوَاقِفُ وَغَیْرُهُ، وَکَذَلِكَ کُلُّ مَنْ جَعَلَ بَدَنَةً أَوْ شَیْئًا لِلَّهِ، فَلَهُ أَنْ یَنْتَفِعَ بِهَا کَمَا یَنْتَفِعُ غَیْرُهُ، وَإِنْ لَمْ یَشْتَرِطْ ۔‘

پھر شریعت میں وقف مشاع کا جواز بھی اس امر کامؤید ہے ۔’’صحیح بخاری‘‘کی تبویب میں ہے:

’بَابُ إِذَا أَوْقَفَ جَمَاعَةٌ أَرْضًا مُشَاعًا فَهُوَ جَائِزٌ‘

یعنی چند افراد مل کر مشترکہ زمین کو وقف کردیں تواس کاجواز ہے۔ نبیﷺ نے گائے کی قربانی میں شراکت کی عمومیت اجازت فرمائی ہے کہ سات افراد اس میں شرکت کرسکتے ہیں۔ آپﷺ نے کسی کو مستثنیٰ قرارنہیں دیا۔ اس کا تقاضا ہے کہ بائع خود بھی بقدر حصہ اس میں شریک ہو سکتا ہے۔اور ایک دم ایک کی طرف سے وہاں ہوتا ہے جہاں پر شرعی اجازت موجود نہ ہو۔ جب کہ محل بحث میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ فقیہ ابن قدامہ بھی مطلق اشتراک کے قائل ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں:

’ وَیَجُوزُ أَنْ یَشْتَرِكَ السَّبْعَةُ فِی الْبَدَنَةِ وَالْبَقَرَةِ، سَوَاء ٌ کَانَ وَاجِبًا أَوْ تَطَوُّعًا، وَسَوَاء ٌ أَرَادَ جَمِیعُهُمْ الْقُرْبَةَ، أَوْ بَعْضُهُمْ، وَأَرَادَ الْبَاقُونَ اللَّحْمَ۔‘(المغنی: ج:۳، ص: ۵۷۹۔۵۸۰)

’’اونٹ، گائے میں سات آدمیوں کی شرکت کا جواز ہے برابر ہے۔ شراکت واجبی یا نفلی قربانی میں ہو اور برابر ہے سب کا ارادہ قربت (عبادت) ہو یا بعض کا اور دیگر افراد کا ارادہ محض حصولِ گوشت ہو۔ ‘‘

بنا بریں حضرت الشیخ محدث روپڑی رحمہ اللہ  کے موقف سے موافقت کرنا مشکل امر ہے۔

۲۔        سابقہ دلائل کی رو سے بظاہر دونوں طرح جواز ہے۔ چاہے شراکت اصل قیمت میں ہو یا منافع کے ہمراہ۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الصوم:صفحہ:375

محدث فتویٰ

تبصرے