سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(491) اونٹ کی قربانی میں کتنے حصے ہیں؟ (بریلوی مکتب ِ فکر کے فتوے پر تعاقب)

  • 25606
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 8257

سوال

(491) اونٹ کی قربانی میں کتنے حصے ہیں؟ (بریلوی مکتب ِ فکر کے فتوے پر تعاقب)

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ’’اونٹ کی قربانی میں دس حصے دار شریک ہو سکتے ہیں یا نہیں؟‘‘ قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔ لاہور کے ایک ’’محمد حسین صاحب‘‘ کے اسی سوال پر جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور نے بھی ایک فتویٰ صاد فرمایا ہے وہ بھی اس استفسار کے ساتھ لف ہے۔(سائل: قاری محمد حیات ربانی)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جامعہ نظامیہ رضویہ کا فتویٰ: بسم اللہ الرحمن الرحیم:

مسئولہ صورت میں اونٹ کی قربانی میں ۱۰ حصہ دار شریک نہیں ہو سکتے۔ کہ صحیح حدیثوں میں گائے اور اونٹ میں سات حصے متعین ہیں، حضرت جابر رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے:

’أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: الْبَقَرَةُ عَنْ سَبْعَةٍ، وَالْجَزُورُ عَنْ سَبْعَةٍ۔‘ (صحیح مسلم،بَابُ الِاشْتِرَاكِ فِی الْهَدْیِ وَإِجْزَاء ِ الْبَقَرَةِ …الخ،رقم: ۱۳۱۸،سنن ابی داؤد،رقم:۲۸۰۷)

’’یعنی گائے سات کی طرف سے اونٹ سات کی طرف سے۔‘‘ اور چودہ سو سالہ جمہور مسلمانوں کا عمل ہے اور اس عمل پر کسی نے کوئی اعتراض نہ کیا اور آئمہ مجتہدین و فقہاء ِ کرام سب کا یہی عمل رہا کہ اونٹ میں سات حصہ ہیں۔ تاہم غیر مقلد فرقہ جو چند سالوں سے نوپید ہے اور جمہور مسلمانوں کا بدخواہ ہے، نے غریب روایات سے استدلال کیا کہ دس حصے ہو سکتے ہیں۔ حالانکہ ان کا یہ استدلال غلط ہے کہ غریب روایت سے حکم ثابت نہیں ہوتا، ترمذی شریف میں دس حصے والی روایت کو نقل کرنے کے بعد فرمایا :’ ھٰذَا حَدِیْثٌ غَرِیْبٌ، بَابُ الاَضْحِیَةَ‘ لہٰذا مسلمانوں پر لازم ہے کہ چودہ سو سالہ جاری عمل کو اختیار کریں اور گمراہ فرقوں کے فتنہ سے اپنے کو محفوظ رکھیں۔ (وَاللّٰہُ تَعَالٰی اَعْلَمُ ۔)۔(نائب مفتی، جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور)

جواب: (از حضرت شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ خان صاحب مدنی۔ الاعتصام) اونٹ کی قربانی میں دس حصے دار شریک ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ

’کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی سَفَرٍ فَحَضَرَ الأَضْحَی فَاشْتَرَکْنَا فِی البَقَرَةِ سَبْعَةً، وَفِی البَعِیرِ عَشَرَةً.۔‘( سنن الترمذی،بَابُ مَا جَاء َ فِی الاِشْتِرَاكِ فِی الأُضْحِیَّةِ،رقم:۱۵۰۱،صحیح ابن خزیمه:۲۹۰۸)

ہم رسول اللہﷺکے ساتھ سفر میں تھے، عید الاضحی کا وقت آگیاتو ہم ایک گائے میں سات اور ایک اونٹ میں دس شریک ہوئے۔

علامہ البانی رحمہ اللہ ’’تعلیق مشکوٰۃ‘‘ (۴۶۲/۱) میں فرماتے ہیں:

’ وَ اِسْنَادُهٗ صَحِیْحٌ، رِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِیْحِ۔‘

’’اس حدیث کی سند صحیح ہے اس کے راوی صحیح کے راوی ہیں۔‘‘

علامہ البانی رحمہ اللہ  نے اسے ’’صحیح الترمذی‘‘ میں شامل کیا ہے۔

جامعہ نظامیہ، رضویہ لاہور کے مفتی صاحب نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اونٹ کی قربانی میں دس آدمیوں کی حصہ داری کے بارے میں وارد روایات غریب اور ناقابلِ استدلال ہیں، غریب روایت سے حکم ثابت نہیں ہوتا، امام ترمذی نے ’بَابُ الاَْضْحِیَۃ‘ میں اسے غریب کہا ہے۔ اسی پر اکتفاء کرنے کی بجائے مسلک اہل حدیث پر خوب کیچر اچھالا اور اپنی بھڑاس نکالی ہے۔ رضاخانی فرقے کی اور اس سے پہلے ہر دور کے اہل بدعت کی یہی عادت رہی ہے ۔شاہ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ  نے فرمایا:

’’اہل بدعت کی علامت ہے کہ اہل حدیث سے بعض رکھتے ہیں۔‘‘

لہٰذا یہ زبان انہی کو مبارک ہو۔ اس وقت بالاختصار جس بات کا جائزہ لینا مقصود ہے وہ یہ کہ کیا فی الواقع حدیث ہذا ضعیف اور ناقابلِ عمل ہے اور افرادِ امت میں سے کسی کا اس پر عمل نہیں ہے؟

جن محدثینِ کرام نے اس روایت کو اپنی ’’تالیفات‘‘ میں جگہ دی ہے، پہلے ان کے حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں! مسند احمد(۱/۲۷۵) ، سنن ابن ماجہ(۳۱۳۱) سنن النسائی( ۲۲۲/۷)، صحیح ابن خزیمہ (۲۹۰۰)،صحیح ابن حبان(۴۰۰۷ ) ، معجم طبرانی کبیر(۱۱۹۲۹) ، معجم طبرانی اوسط (۸۱۲۸)، حاکم(۲۹۰/۴۰) ،بیہقی(۵/۲۳۵)، بغوی(۱۱۳۲)، تحفۃ الاشراف(۱۵۱/۵، حدیث رقم:۱۶۵۸) ، المسند الجامع(۳۴۵/۹، حدیث رقم: ۶۷۰۶)

مفتی صاحب موصوف نے ’’امام ترمذی‘‘ کے حوالے سے صرف اس کی غرابت نقل کی ہے جب کہ امرِ واقع یہ ہے کہ امام ترمذی رحمہ اللہ  نے اس حدیث پر حسن غریب کا حکم لگایا ہے اور اس سے مقصود سندوں کے اختلاف کی طرف اشارہ کرنا ہے۔ بعض کے اعتبار سے غریب اور بعض کے اعتبار سے حسن ہے۔ ذیل میں اس روایت کے متعلق مختلف ائمہ حدیث کے اقوال نقل کیے جاتے ہیں۔

٭        امام حاکم رحمہ اللہ  نے کہا: ’ صَحِیْحٌ عَلٰی شَرْطِ الْبُخَارِیِّ ‘ ’’اس حدیث کی سند صحیح ہے اس کے راوی صحیح کے راوی ہیں۔‘‘

٭        امام الجرح والتعدیل ذہبی رحمہ اللہ نے اس کی موافقت کی ہے۔

٭        امام ابن خزیمہ  رحمہ اللہ  نے اپنی’’صحیح‘‘ میں اسی پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اس موقف کو قوی قرار دیا ہے اور اپنے مسلک کی تقویت کے لیے رافع بن خدیج کی حدیث سے تائید حاصل کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک جہادی مہم میں ایک اونٹ کو دس بکریوں کے قائم مقام قرار دیا تھا۔ (صحیح البخاری، کتابُ الشِّرْکَۃ، بَابُ قِسْمَۃ الْغَنَمِ،رقم:۲۴۸۸، معجم الکبیر،رقم:۴۳۸۳)

٭        امام بن ماجہ نے اپنی ’’سنن‘‘ میں اس حدیث پر بایں الفاظ تبویب قائم کی ہے: ’بَابُ عَنْ کَمْ تُجْزِئُ الْبَدَنَۃُ وَالْبَقَرَۃُ‘ یعنی کتنے آدمیوں کی طرف سے اونٹ اور گائے کافی ہو سکتی ہے ؟ اس سے معلوم ہوا کہ امام موصوف کے نزدیک اونٹ میں دس کی شراکت کا جواز ہے۔

٭        امام اسحاق رحمہ اللہ  فرماتے ہیں کہ اونٹ دس آدمیوں کی طرف سے کافی ہو جاتا ہے۔ اس کے لیے انھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما  کی حدیث سے استدلال کیا ہے۔

٭        امام ابن حزم ’’المحَلّٰی‘‘ (۳۸۲/۷) میںفرماتے ہیں کہ یہی بات صحابہ سے ابن عباس(راوی حدیث) سے منقول ہے۔

٭        امام شوکانی’’نیل الاوطار‘‘ میں فرماتے ہیں کہ ’’اونٹ کی قربانی میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ شافعیہ، حنفیہ اور جمہور اس بات کے قائل ہیں کہ اونٹ سات کی طرف سے کافی ہوتاہے۔ جب کہ عترت،اسحاق بن راہویہ، ابن خزیمہ اور ایک روایت میں ابن مسیب نے کہا ہے کہ اونٹ دس افراد کی طرف سے کافی ہو جاتا ہے اور یہی بات حق اور صواب ہے۔(بحوالہ تحفة الاحوذی:۳۵۶/۲)

واضح ہو کہ حق کی معرفت کا معیار قلت و کثرت نہیں بلکہ اصل دلیل کی پیروی ہے۔قرآن میں ہے:

﴿فَرُدُّوْهُ اِلَی اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ﴾ (النساء: ۵۹)  اَیْ اِلٰی کِتَابِ اللّٰهِ وَ سُنَّةِ رَسُوْلِهٖ ، لَا اِلٰی آرَاءِ الرِّجَالِ وَافْهَامِهِمْ۔

’’یعنی اپنے اختلاف کو اللہ کی کتاب اور اس کے رسولﷺکی سنت کی طرف لوٹا دو نہ کہ افرادِ امت کی آراء و افکار کی طرف۔‘‘

حضرت علی رضی اللہ عنہ  کة قول مشہور ہے کہ :’اَعْرِفِ الْحَقَّ تَعْرفْ اَهْلَهٗ ‘

’’حق کی پہچان کرو، اہل حق کا تجھے علم ہو جائے گا۔‘‘

’ اَللّٰهُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَارْزُقْنَا اِتِّبَاعَهُ وَ اَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَ ارْزُقْنَا اجْتِنَابَه ۔‘

امید ہے حضرت مفتی صاحب اپنے فتوے پر نظر ثانی فرمائیں گے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کا قول ہے:

’ وَمُرَاجَعَةُ الْحَقِّ خَیْرٌ مِنْ التَّمَادِی فِی الْبَاطِلِ‘(اعلام الموقعین:۶۸/۱)

’’باطل پر اصرار سے بہتر ہے کہ آدمی حق کی طرف رجوع کرلے۔‘‘

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الصوم:صفحہ:372

محدث فتویٰ

تبصرے