سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(456) کیا روزِ جزاء حجر اسود اور کعبہ کی شفاعت ہوگی؟/کیا کعبہ کو قیمتی غلاف پہنانا اسراف نہیں؟

  • 25571
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1061

سوال

(456) کیا روزِ جزاء حجر اسود اور کعبہ کی شفاعت ہوگی؟/کیا کعبہ کو قیمتی غلاف پہنانا اسراف نہیں؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بخدمت مدیر’’الاعتصام‘‘ و مفتی’’الاعتصام‘‘ سلام مسنون۔

روزنامہ’’جنگ‘‘ لاہور کی ۱۲ مئی کی اشاعت میں یہ خبر نظروں سے گزری کہ ’’گورنرمکہ‘‘ نے خانہ کعبہ کو غسل دیا اور ہزاروں عبادت گزاروں نے اس روح پرور منظر کو دیکھا، نیز غلافِ کعبہ ۱۹ مئی کو تبدیل ہو گا۔ ایک غلاف کی تیاری پر ۱۷ ملین ریال کا خرچہ آیا ہے۔ غلاف کی تیاری مکہ مکرمہ میں قائم خصوصی کارخانے میں ہوتی ہے۔ (جنگ لاہور ۱۲ مئی ۱۹۹۴ء)

سوال یہ ہے کہ یہ غسل و غلافِ کعبہ اور اس پر اتنا کثیر خرچ کیا حدیث و سنت سے ثابت ہے ؟ یا کہ یہ ایک تاریخی قسم کی رسم ہے۔ جسے نبھایا جا رہا ہے۔ ؟ جب کہ اتنے خرچہ سے کئی غریب مسلمان ممالک اور بے شمار غریب اہل اسلام کی معاونت و کفالت ہو سکتی ہے۔ نیز دیگر معاملات میں جب اسراف سے اجتناب اور سادگی اور کفایت شعاری کا درس دیا جاتا ہے تو غلافِ کعبہ کے سلسلہ میں اس پر عمل کیوں نہیں کیا جاتا۔

علاوہ ازیں کعبہ شریف اپنی عظمت کے باوجود جب پتھر سے تعمیر شدہ ہے تو اسے کپڑے پہنانے کی کیا ضرورت ہے ؟ا وراس کا کیا فائدہ ہے ؟ کیا اسے لباس و غلاف پہنانا غیر ضروری و بے مقصد نہیں؟

کہا جاتا ہے کہ حجرِ اسود ، کعبہ شریف بروزِ محشر شفاعت کریں گے اس کی اصل و دلیل کیا ہے ؟ مدلل جواب سے معلومات میں اضافہ کریں۔ (منتظر جواب، فقیر حسین خادم مسجد روڈے والی اسلام آباد گوجرانوالہ) (۵۔اگست ۱۹۹۴ئ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کعبہ کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ اغلب اَدوار میں اس پر بہتر سے بہتر غلاف چڑھایا گیا۔ اہل علم نے اس پر نکیر نہیں فرمائی۔ بالخصوص سلف صالحین جن کے افعال و اقوال کو منارۂ ہدایت سمجھا جاتا ہے بلکہ فعل ہذا کو بنظر استحسان دیکھا گیا۔ چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ، قاضی زین الدین عبدالباسط کے بارے میں فرماتے ہیں:

’ فَبَالَغَ فِی تَحْسِینِهَا بِحَیْثُ یَعْجِزُ الْوَاصِفُ عَنْ صِفَةِ حُسْنِهَا جَزَاهُ اللَّهُ عَلَی ذَلِكَ أَفْضَلَ الْمُجَازَاةِ  ۔‘ (فتح الباری:۴۶۰/۳)

’’یعنی اس نے غلاف کی بے انتہاء تحسین و تزئین کی کہ بیان کرنے والا اس کے بیان اور توصیف سے قاصر ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس عمل پر ان کو بہترین بدلہ سے نوازے۔‘‘

اس سے معلوم ہوتا ہے انفاقِ ہذا اسراف و تبذیر کے زمرہ میں داخل نہیں کیونکہ اس پر بالتوات عملی اجازت موجود ہے۔ اسی بناء پر اہل علم کہتے ہیں کہ دیگر مساجد کو کعبہ پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ اس عظیم خدمت کے علاوہ واضح ہو کہ موجودہ دور میں سعودی حکومت کی افضل ترین حسنات سے حرمین کی توسیع کا شاندار منصوبہ ہے جو تکمیل کے آخری مراحل میںہے۔آل سعود کا یہ ایک عظیم کارنامہ ہے۔ جس کی مثال پیش کرنے سے آج کی دنیا قاصر ہے۔ رب تعالیٰ نے انھیں زمینی خزانوں سے نوازا ہے تو اس کے پسندیدہ مقامات پر زائرین کے آرام کی خاطر اس دولت کو اُس کی راہ میں لٹایا اور پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے۔ رَبِّ زِدْ فَزِدْ

ہر زائر کی زبان سے بے ساختہ اس حکومت کے لیے دعائیں نکلتی ہیں۔ یا رب العالمین اس موحد سرکار کو تادیر قائم رکھنا تاکہ تیرے دین برحق کی خدمت کرتی رہے ۔آمین یا رب العالمین

اسی طرح غسل کعبہ بھی عملی تواتر کی قبیل سے ہے بعض روایات میں تصریح موجود ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر نبیﷺ نے بتوں کو توڑنے اور تصویروں کو مٹانے کے بعد کعبہ کو غسل دینے کا حکم دیا تھا۔

’اِنَّ النَّبِیَّ ﷺ  اَمَرَ بِغُسْلِ الْکَعْبَةِ بَعْدَ مَا کسر الاَصْنَام وَ طمس التَّصَاوِیْر(‘تاریخ کعبة المعظمة،ص:۳۲۷، بحواله حسین عبدالله باسلامه منائح الکرم)

یاد رہے کسوۃ کعبہ کے تیسرے باب میں کافی مواد موجود ہے جو فی الجملہ مفید ہے۔ ملاحظہ ہو،ص:۲۲۷ تا ۲۷۲۔نیز غلاف صرف کعبہ کے احترام کی خاطر پہنایا جاتا ہے۔ جو اسی کا خاصہ ہے۔ (جس میں کسی دوسری عمارت کو شریک نہیں کرنا چاہیے اسی لیے وہ حتی المقدور اچھا ہونا چاہیے گھٹیا قسم کے کپڑوں سے کسی کا کیا احترام ہوگا۔(ن۔ح۔ن)

ترمذی میں حدیث ہے:

’وَسَتَرْتُمْ بُیُوتَکُمْ کَمَا تُسْتَرُ الکَعْبَةُ۔‘ (سنن الترمذی،رقم: ۲۴۷۶)

’’یعنی قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ تم اپنے گھروں کو ایسے ڈھانکو گے جیسے کعبہ کو ڈھانکا جاتا ہے۔‘‘ (کسی عمارت کو یا زیب و زینت کی خاطر ڈھانکا جاتا ہے(جیسے گھروں میں پردے لٹکانا) یا اَدب و احترام کی خاطر ( جیسے کعبۃ اللہ پر غلاف چڑھایا جاتا ہے) ترمذی کی اس روایت سے معلوم ہوا کہ جب گھروں کو زیب و زینت کے خیال سے ڈھانکنا بھی شرعاً پسند نہیں کیا گیا تو پھر عمارت کو کسی ادب و احترام کی خاطر ڈھانکنا کیسے جائز ہو سکتا ہے کیوں کہ اس سے کعبۃ اللہ کے امتیاز و تشخص کا مجروح ہونا اور اس کی خصوصیات میں دوسری عمارتوں کا شریک ہونا لازم آتا ہے۔

یہاں مزید عقلی توجیہات کی چنداں ضرورت نہیں کیونکہ مسلمان ہمیشہ احکامِ الٰہی کا پابند ہوتا ہے چاہے کسی شئے کی مشروعیت اس کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔

حجر اسود کے بارے میں ایسی روایات موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ جس نے اس کا برحق استلام کیا روزِ جزا اس کا گواہ بن کر آئے گا۔ اگرچہ ان روایات میں سے کئی ایک متکلم فیہ ہیں لیکن مجموعہ طور پر وہ قابلِ حجت ہیں۔(فتح الباری:۴۶۲/۳، بَابُ مَا ذکر فی الحجر الاَسْوَد) لیکن کعبہ کی بابت کوئی روایت نظر سے نہیں گزری جس میں اس بات کی تصریح ہو۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الصوم:صفحہ:353

محدث فتویٰ

تبصرے