سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(449) نیت احرام کے دو نفلوں کا جواز؟

  • 25564
  • تاریخ اشاعت : 2024-11-02
  • مشاہدات : 794

سوال

(449) نیت احرام کے دو نفلوں کا جواز؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نیت احرام کے دو نفلوں کا جواز؟ کتاب جلد اوّل ص: ۷۱۹ میں ہے کہ اگر نماز کا وقت نہیں تو احرام کی نیت سے دو نفل پڑھو۔ حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ حج کرنے کے لیے نکلے۔ مسجد ذوالحلیفہ میں دو رکعت نماز ادا کرنے کے بعد حج کا احرام باندھا۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الحج ، بَابُ وَقْت الاِحْرَامِ ،رقم: ۱۷۷۰۔ مسند احمد، (ج:۱، ص:۲۶۰)،رقم:۲۳۵۸)

تجلیاتِ نبوت (مؤلف وتخریج مولانا صفی الرحمن مبارکپوریؒ) میں لکھا ہے کہ آپ ﷺ نے حج کا ارادہ فرمایا۔ اعلان کرنے پر مدینہ میں بہت سے لوگ جمع ہوگئے۔ (مسلم: ۱/ ۴۹۴) ہفتہ کے دن ۲۶ ذوالقعدہ (فتح الباری: ۸/ ۱۰۴) ظہر کی نماز کے بعد چل کر عصر سے پہلے ذوالحلیفہ پہنچ کردو رکعت عصر پڑھی پھر وہیں رات گزاری۔ (صحیح البخاری،بَابُ مَنْ بَاتَ بِذِی الحُلَیْفَۃِ حَتَّی أَصْبَحَ، رقم: ۱۵۴۶، بَابُ رَفْعِ الصَّوْتِ بِالإِہْلاَلِ،رقم:۱۵۴۸) صبح ہونے پر فرمایا کہ آج رات میرے رب کی طرف سے ایک آنے والے نے کہا کہ اس مبارک وادی میں نماز پڑھو اور کہو کہ حج میں عمرہ ہے۔ (صحیح البخاری،بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: العَقِیقُ وَادٍ مُبَارَکٌ،رقم:۱۵۳۴، و ۲۳۳۷، ۷۳۴۳)

معلوم ہوتا ہے کہ اسی روایت سے اخذ کیا گیا ہے کہ احرام کی نیت سے دو نفل ادا کیے جائیں مگر بعض علمائے کرام (پاکستانی وسعودی) سے معلوم ہوا کہ احرام کی نیت سے دو نوافل سنت نہیں یعنی صراحتاً اس کا ذکر نہیں ملتا بلکہ اس روایت میں بھی ایسا نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ فرشتے نے صبح کی نماز کا اشارہ دیا ہو کہ بجائے مسجد کے اسی مبارک وادی میں ادا کرلیں اور پھر احرام باندھیں۔ چناں چہ بخاری کے ابواب ( بَابُ مَنْ بَاتَ بِذِی الحُلَیْفَۃِ حَتَّی أَصْبَحَ، بَابُ رَفْعِ الصَّوْتِ بِالإِہْلاَلِ اور التَّلْبِیَۃ) کی روایات سے مترشح ہوتا ہے کہ آپ ﷺصبح کی نماز کے بعد اونٹنی پر سوار ہوکر احرام باندھ کر تلبیہ پکارتے۔ آپ ﷺ نے زندگی میں کئی دفعہ احرام باندھا تو ان کے متعلق صراحتاً حکم یا عمل نہیں ملتا کہ نیت احرام کے دو نفل ادا کیے جائیں۔ وضاحت فرما دیں کہ کس حوالے سے اسے سنت تصور کیا جاسکتا ہے؟ (سائل: ڈاکٹر عبید الرحمن چودھری)(۶ اپریل ۲۰۰۷ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

احرام کی نیت سے دو نفل نبی ﷺ سے ثابت نہیں۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

’وَلَمْ یُنْقَلْ عَنْهُ (صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ) أَنَّهُ صَلَّی لِلْإِحْرَامِ رَکْعَتَیْنِ غَیْرَ فَرْضِ الظُّهْرِ.۔‘ (زاد المعاد: ۲/ ۱۰۷)

’’نبی ﷺ سے منقول نہیں کہ آپ ﷺ نے احرام کی نیت سے دو رکعتیں پڑھی ہوں سوائے ظہر کے فرض کے۔‘‘

اور ’’سنن ابی داؤد‘‘ کی روایت میں جو یہ الفاظ ہیں:

’فَلَمَّا صَلَّی فِی مَسْجِدِهِ بِذِی الْحُلَیْفَةِ رَکْعَتَیْهِ‘(سنن أبی داؤد،بَابٌ فِی وَقْتِ الْإِحْرَامِ،رقم:۱۷۷۰)

’’جب آپ ﷺ نے ذوالحلیفہ کی مسجد میں دو رکعتیں ادا کیں‘‘ سے مراد ظہر کی قصر نماز ہے اورمولانا کی تشریح بہ نیت نماز احرام محل نظر ہے۔ بوقت احرام جس نماز کا ذکر ہے وہ ظہر کی نماز ہے۔ جس طرح کہ طرق حدیث میں اس امر کی تصریح موجودہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الصوم:صفحہ:349

محدث فتویٰ

تبصرے