سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(446) فریضہ حج اور عدتِ وفات جمع ہو جانے کی صورت میں کسے مقدم کیا جائے؟

  • 25561
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 866

سوال

(446) فریضہ حج اور عدتِ وفات جمع ہو جانے کی صورت میں کسے مقدم کیا جائے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

پچاس سالہ ایک عورت حج پر جانا چاہتی ہے۔ قبل از سفر ِ حج، قضائے الٰہی سے اس کا شوہر انتقال کر جاتا ہے۔ اب وہ عدت ِ وفات پوری کرے یا حج پر چلی جائے؟ (ثناء اللہ بھٹی لاہور)(یکم جولائی ۱۹۸۸ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورتِ مسئولہ میں دو واجب جمع ہوئے ہیں۔

(۱) عدت ِ وفات پوری کرنا۔ (۲) فریضہ حج کی ادائیگی۔

واجبین میں سے عدت ِ وفات کا تعلق ’’واجب مضیق‘‘ سے ہے، جب کہ حج کا تعلق ’’واجب موسع‘‘ سے ہے ! ’’واجب مضیق‘‘ وہ ہے جس کا وقت محدود ہو فدیہ دوسرے وقت میں کرنا ناممکن ہو۔

اور ’’واجب موسع‘‘ وہ ہے کہ جس کے وقت میں وسعت ہو اور اس کی ادائیگی دوسرے وقت میں ممکن ہو۔ عدت ِ وفات کا تعلق’’واجب مضیّق ‘‘ سے ہے، اس لیے کہ کسی دوسرے وقت میں اسے پورا کرنا ناممکن ہے۔ جب کہ حج کا تعلق ’’واجب ِ موسّع‘‘ سے ہے ، جو بعد میں بھی ادا ہو سکتا ہے۔ اندریں صورت اہل اصول کے ہاں یہ بات مسلّم ہے کہ واجب مضیّق کو واجب موسع پر مقدم کیا جاتا ہے۔ لہٰذا مذکورہ عورت پہلے عدت پوری کرے گی اور پھر حج کی ادائیگی کی سعی کرے گی۔

قرآن مجید میں ہے:

﴿وَالَّذينَ يُتَوَفَّونَ مِنكُم وَيَذَرونَ أَزو‌ٰجًا يَتَرَبَّصنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَربَعَةَ أَشهُرٍ وَعَشرًا ...﴿٢٣٤﴾... سورة البقرة

’’اور جو لوگ تم میں سے وفات پاجاتے ہیں اور بیویوں کو چھوڑ جاتے ہیں تو وہ چار ماہ دس دن انتظار کریں۔‘‘

فقیہ ابن قدامہ رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

’ وَ لَا تَخْرُجُ اِلَی الْحَجِّ فِیْ عِدَّةِ الْوَفَاةِ نَصَّ عَلَیْهِ اَحْمَدُ‘(المغنی جزئ،۳،ص:۳۴۰)

امام احمد رحمہ اللہ نے تصریح کی ہے کہ عورت، عدتِ وفات میں حج کے لیے نہ جائے۔‘‘

… واضح ہو کہ عمر کے اعتبار سے عورت چاہے اوائل میں ہو یا اواخر میں ، نفس مسئلہ میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ عدت ہر حالت میں حق العبد اور حق اللہ ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الصوم:صفحہ:348

محدث فتویٰ

تبصرے