السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک عورت پر حج فرض ہے، جس کی عمر تقریباً ۶۵ سال ہے۔ پاکستان سے سعودیہ تک جانے کے لیے اس کا کوئی محرم نہیں ہے۔ جب کہ سعودیہ میں اس عورت کا بیٹا موجود ہے۔ جو اس کو حج کروا رہا ہے تو کیا اس عورت کا حج درست ہو گا۔ اگر اس کا کوئی جعلی محرم بنا کر حج پر بھیج دیا جائے جب کہ اسی علاقے سے مزید عورتیں بھی حج پر جا رہی ہیں؟۔ (سائل محمد شفیع طاہر، مدینہ منورہ ) (۲۰ نومبر ۱۹۹۸ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مسئلہ ہذا میں اگرچہ اہل علم کا اختلاف ہے لیکن ظاہر یہ ہے کہ مذکورہ عورت ثقہ دیندار عورتوں کی جماعت کے ساتھ حج کا سفر اختیار کر سکتی ہے۔ وفات النبیﷺ کے بعد عہد ِ عمر رضی اللہ عنہ میں ازواجِ مطہرات کا عمل جواز کا مؤید ہے۔ امام شافعی، امام مالک، اوزاعی، ابن سیرین ،عطائ، سعید بن جبیراور دیگر بعض ائمہ رحمہم اللہ جواز کے قائل ہیں۔
امام مالک رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’الموطأ‘‘ میں عنوان قائم کیا ہے:
’حَجُّ الْمَرْأَةِ بِغَیْرِ ذِی مَحْرَمٍ۔‘
یعنی ’’ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ جس عورت کا خاوند نہیں اور اس نے حج نہیں کیا اگر اس کا کوئی محرم نہ ہو یا ہو مگر ساتھ نہ جا سکے تو وہ عورت فریضۂ حج ترک نہ کرے بلکہ دوسری عورتوں کے ساتھ جائے اور حدیث میں ہے:
’ لاَ تَمْنَعُوا إِمَاءَ اللَّهِ مَسَاجِدَ اللَّهِ ‘ (صحیح البخاری،بَابُ هَلْ عَلَی مَنْ لَمْ یَشْهَدِ الجُمُعَةَ غُسْلٌ مِنَ النِّسَاء ِ وَالصِّبْیَانِ وَغَیْرِهِمْ؟،رقم:۹۰۰)
’’اللہ کی بندیوں کو مسجدوں سے مت روکو۔‘‘
حدیث ہذا کا سبب اگرچہ خاص ہے لیکن قاعدہ مسلم ہے :
’اَلْعِبْرَة بِعَمُوْمِ اللَّفْظِ لَا بِخَصُوصِ السَّبَبِ ۔‘
’’لہٰذا فرضی تقاضا پورا کرنے کا کوئی حرج نہیں۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب