السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک عمرے اور دوسرے عمرے کے درمیان کتنے عرصے کا فرق ہونا چاہیے۔ میں نے دیکھا ہے کہ بعض حضرات روزانہ ہی مسجد عائشہ سے احرام باندھ کر عمرہ کر لیتے ہیں۔ بعض دو تین دن بعد اور اسی طرح مختلف عرصہ بعد۔ مسنون طریقہ کی وضاحت فرمادیں۔ (شیخ محمد فاروق۔ پشاور) (۲۵ فروری ۲۰۰۰ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بلاریب صحیح حدیث میں تعدّدِ (کثرت) عمرہ کی ترغیب وارد ہے۔ ایک عمرہ کے بعد دوسرا عمرہ درمیانی کوتاہیوں کے لیے کفارہ ہے۔ اور حجِ مبرور( مقبول حج) کی جزاء صرف بہشت ہے۔ بذاتِ خود نبیﷺنے زندگی میں چند ہی عمرے کیے اور صحابہ کرام و ائمہ سنت سے بھی چند ہی ثابت ہیں۔ دو عمروں کے درمیان وقفے کی کسی حدیث میں اگرچہ تصریح نہیں، لیکن نبیﷺ اور صحابہ کرام اور ائمہ سلف کے معمولات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بکثرت عمرے نہیں کرتے تھے۔
اور مسجد عائشہ رضی اللہ عنہا سے روزانہ یا ایک دن میں کئی دفعہ عمرے کرنے کا جو بعض لوگوں نے معمول بنا رکھا ہے، سنت سے قطعاً ثابت نہیں۔ اگر یہاں سے احرام باندھنے کی کوئی اہمیت ہوتی تو صحابہ کرام اور سلف صالحین یقینا اس کے زیادہ حق دار تھے۔ لیکن ان سے ثابت نہیں کہ وہ وقفے وقفے بعد مسجد عائشہ سے احرام باندھ کر عمرے کرتے ہوں، نہ روزانہ اور نہ دو تین دن بعد، نہ ہفتوں ، مہینوں اور نہ برسوں بعد ، اس عادت کو بدلنا ضروری ہے ورنہ سنت میں دخل اندازی سمجھی جائے گی جو مقامِ خطر ہے۔
ہاں زندگی میں جب کوئی شخص عمرہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو مواقیت یا حل وغیرہ سے احرام باندھ کر عمرے کے لیے جا سکتا ہے جو باعث اجر و ثواب ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب