سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(435) کیا عمرہ کرنا واجب ہے ؟

  • 25550
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 2880

سوال

(435) کیا عمرہ کرنا واجب ہے ؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 کیا حج کی طرح عمرہ بھی صاحب ِ استطاعت پر فرض ہے ؟ (سائل) (۸۔ اگست ۲۰۰۳ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عمرے کے واجب ہونے میںاہل علم کا اختلاف ہے۔ امام شافعی اور امام احمد وجوب کے قائل ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ  نے بھی ’’صحیح بخاری‘‘ میں وجوب کو اختیار کیا ہے ،چنانچہ فرماتے ہیں:

’بَابُُ الْعُمْرَةَ ۔ بَابُ وُجُوبِ العُمْرَةِ وَفَضْلِهَا۔ وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا : لَیْسَ أَحَدٌ إِلَّا وَعَلَیْهِ حَجَّةٌ، وَعُمْرَةٌ ۔ ‘

’’ابن عمر رضی اللہ عنہما  نے کہا کہ ہر ایک پر حج اور عمرہ فرض ہے۔‘‘

اس تعلیق کو ابن خزیمہ ،دارقطنی اور ’’حاکم‘‘ نے ابن جریج کے طریق سے موصول بیان کیا ہے۔

حنفیہ اور مالکیہ کا مشہور قول یہ ہے کہ عمرہ نفلی عمل ہے۔ جن چند روایات سے ان کا استدلال ہے، اُن میں سے زیادہ تر ضعیف ہیں۔ جب کہ وجوب ِ عمرہ کے بارے میں کئی ایک احادیث وارد ہیں۔ ان میں سے حدیث ِ جبریل میں ہے کہ جب انھوں نے نبیﷺ سے اسلام کے بارے میں سوال کیا تو آپﷺ نے فرمایا:

’ الْإِسْلَامُ أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَأَنْ تُقِیمَ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِیَ الزَّکَاةَ، وَتَحُجَّ الْبَیْتَ وَتَعْتَمِرَ، وَتَغْتَسِلَ مِنَ الْجَنَابَةِ، وَأَنْ تُتِمَّ الْوُضُوءَ، وَتَصُومَ رَمَضَانَ۔‘ (صحیح ابن خزیمة،بَابُ ذِکْرِ الْبَیَانِ أَنَّ الْعُمْرَةَ فَرْضٌ وَأَنَّهَا مِنَ الْإِسْلَامِ کَالْحَجِّ …الخ ،رقم:۶۵۳۰، السنن الکبرٰی للبیهقی،بَابُ مَنْ قَالَ بِوُجُوبِ الْعُمْرَةِ اسْتِدْلَالًا بِقَوْلِ اللهِ تَعَالَی (وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ) …، رقم:۸۷۶۶)

’’اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِبرحق نہیں اور بے شک محمد اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کرو اور زکاۃ دو اور بیت اللہ کا حج اور عمرہ کرو، غسلِ جنابت کرو اور وضو پورا کرو اور رمضان کے روزے رکھو۔‘‘

اس حدیث کو ابن خزیمہ اور دارقطنی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ  سے بیان کیا ہے۔ دارقطنی رحمہ اللہ  نے کہا ہے: ’ھٰذَا اِسْنَادٌ ثَابِتٌ صَحِیْحٌ۔‘ ’’ یہ اسناد صحیح ثابت ہے۔‘‘

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  سے مروی ہے کہ میں نے کہا: یا رسول اللہ! کیا عورتوں پر بھی جہاد ہے ؟ فرمایا:

’ نَعَمْ، عَلَیْهِنَّ جِهَادٌ، لَا قِتَالَ فِیهِ: الْحَجُّ وَالْعُمْرَةُ ۔‘ (سنن ابن ماجه،بَابُ الْحَجُّ، جِهَادُ النِّسَاء ِ،رقم:۲۹۰۱)

’’ ان کے ذمے ایسا جہاد ہے جس میں لڑائی نہیں، وہ حج اور عمرہ ہے۔‘‘

یہ حدیث ’’مسند احمد‘‘ اور ’’سنن ابن ماجہ‘‘ میں بسند صحیح موجود ہے، جب کہ ’’سنن ترمذی ‘‘ میں ہے:

’تَابِعُوا بَیْنَ الحَجِّ وَالعُمْرَةِ۔‘ (سنن الترمذی،بَابُ مَا جَاءَ فِی ثَوَابِ الحَجِّ وَالعُمْرَةِ، رقم:۸۱۰)

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الصوم:صفحہ:341

محدث فتویٰ

تبصرے