سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(275) امامت کے متعلق اور اس کی پیداوار کے متعلق اختلاف

  • 2555
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1141

سوال

(275) امامت کے متعلق اور اس کی پیداوار کے متعلق اختلاف
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے گاؤں میں ایک مسجد ہے اس پر دو شخصوں کا امامت اور اس کی پیداوار کے متعلق نزاع ہے چنانچہ اس پر بہت اختلاف اور فساد برپا ہو گیا ہے اب گاؤں والوں نے یہ ارادہ کیا ہے کہ اس فتنہ اور فساد کے رفع کے واسطے ایک کے لیے علیحدہ مسجد بنوا کر اس کا امام بنادیں اور اس کی آمدنی کا وہی مستحق ہو اب علمائے کرام و مفتیان عظام سے سوال ہے کہ آیا اس نیت پر دوسری مسجد بنانی جائز ہے یا نہ اور اس کو مسجد ضرور کہنا کیسا ہے۔ بینوا بالدلیل توجروا عنہ اللہ الجلیل؟


 

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دوسری مسجد بارادہ رفع فساد و رفع اختلاف بنوانی جائز ہے ایسی مسجد کو مسجد ضرار نہیں کہا جاتا ہے مسجد ضرار وہ ہے جس کے بنوانے سے مسلمانوں کا ضرر اور مومنوں میں تفرقہ مدنظر ہو۔ جیسا کہ قرآن شریف میں ہے۔
﴿وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَ‌ارً‌ا وَكُفْرً‌ا وَتَفْرِ‌يقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ
’’اور جنہوں نے بنائی ایک مسجد ضد اور کفر پر اور پھوٹ ڈالنے کو مسلمانوں میں۔‘‘
یہاں تو مسجد بنوائی رفع فساد و فتنہ و رفع تفرقہ اختلاف کے واسطے ہے یہ کسی طرح مسجد ضرار نہیں ہو سکتی ہے بلکہ اگر نیت اصلاح و رفع فساد ہو تو اس میں اجر و ثواب ہے حدیث صحیح میں ہے۔
«من بنی مسجد للّٰہ نبی اللّٰہ لہ بیتا فی الجنة » (متفق علیہ)
’’جو کوئی اللہ کے نام پر مسجد بناوے اس کے لیے اللہ تعالیٰ جنت میں گھر بنا دے گا۔‘‘
اگر نیت صالح ہو تو تعدد مسجد میں کوئی ڈر نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مساجد کے واسطے عام اجازت ہے۔ ابو داؤد و ترمذی ابن ماجہ میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے۔
أمر رسول اللّٰہ صلی اللہ علیه وسلم ببناء المساجد فی الدور وان ینظف ویطیب
(فتاویٰ غزنویہ ص ۲۵۰ ، حررہ عبد الجبار بن عبد اللہ الغزنوی عفا اللہ عنہما)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گلی کوچوں میں مسجدیں بنانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ پاک صاف رکھی جاویں اور خوشبود ار کی جاویں۔‘‘
(المترجم عبد الودود بن المولوی محمد اسحاق العلوئے للوویانوی عفا اللہ عنہا)

خلاصہ:…  مدینہ منورہ کے چند شر پسند منافقوں نے دین کے دشمن شریر ابو عامر الفاسق کے کہنے پر مسجد قبا ء کے مقابلہ میں اپنے چند مقاصد کے پیش نظر ایک مسجد تعمیر کی جو بعد میں مسجد ضرار کے نام سے مشہور ہوئی۔ ان کے ناپاک مقاصد یہ تھے۔
ا۔    مسلمانوں کو ہر طرح سے نقصان پہنچایا جائے۔
ب۔    لوگوں کو خدا اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کرنے پر آمادہ کیا جائے۔
ج۔    مسلمانوں میں تفرقہ ڈال کر ان کی ملت کا شیرازہ بکھیرد یا جائے۔
د۔    اور جو اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ لڑ چکے ہیں یا لڑنے کا ارادہ رکھتے ہوں ان کو اس میں پناہ دی جائے۔
حضور علیہ السلام کو جب ان کے ناپاک عزائم کا بذریعہ وحی علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اس مسجد کے گرانے کا ہی حکم نہیں دیا بلکہ فرمایا کہ اس کو آگ لگا کر اس جگہ کوڑا کرکٹ اور گندگی پھینکی جائے تاکہ اس کا نشان ہی مٹ جائے۔
اس طرح اگر آج بھی کوئی آدمی محلہ میں بمجودگی مسجد دیگر مندرجہ بالا مقاصد میں سے کسی کی خاطر نئی مسجد تعمیر کرتا ہے تو وہ بھی مسجد ضرار کے حکم میں شامل ہو گی اور اس کو گرا دیا جائے تاکہ مسلمانوں کے لیے باعث تکلیف نہ ہو۔ ہاں اگر محلے کی مسجد اتنی تنگ ہو کہ اس میں تمام لوگ بآسانی نہ سما سکتے ہوں۔ یا معذوروں کو گرمی یا سردی کی راتوں میں آمدورفت سے تکلیف محسوس ہوتی ہو۔ یا بارش کی وجہ سے ایسی رکاوٹ حائل ہو جاتی ہو کہ اکثر آدمی مسجد میں نہ آ سکتے ہوں۔  تو ان صورتوں میں نئی مسجد بنائی جا سکتی ہے۔ واللہ اعلم

قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 02

محدث فتویٰ

تبصرے