السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہم لوگ اﷲ کے فضل و کرم سے صاحب مال و جائیداد ہیں اور ہر سال اﷲ کی توفیق سے زکوٰۃ بھی ادا کر رہے ہیں۔ جب سے جہاد شروع ہوا ہے۔ ہم لوگ اپنی زکوٰۃ جہاد فنڈ میںہی جمع کرا دیتے ہیں۔ اب ایک دوست نے توجہ دلائی ہے کہ ’’زکوٰۃ‘‘ تو خالصتاً اﷲ کا مال ہے اور جو آدمی مسلمان ہونے کے باوجود ادا کرنے سے انکار کرے اس کے خلاف تو خود جہاد کرنا فرض ہے۔ اور یہی اسوۂ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہے۔ زکوٰۃ کو اسی طور طریقہ پر خرچ کرنا چاہیے جس طریقہ سے اﷲ نے ترتیب مقرر کی ہے اور نبیﷺ نے اپنی زندگی میں عمل کیا ہے جس طرح زکوٰۃ اسلام کا ایک رکن ہے۔ اسی طرح جہاد بھی اسلام کا دوسرا رکن ہے۔ دونوں کے احکامات اﷲ نے الگ الگ ارشاد فرمائیں ہیں؟ اس دوست کا نقطۂ نظر بھی آپ کے ملاحظہ کے لیے روانہ کیا جارہا ہے۔
اب ہمیں مندرہ ذیل اشکال ہیں۔
۱۔ کیا زکوٰۃ مجاہدین پر خرچ کی جا سکتی ہے؟
۲۔ مجاہدین اور مقامی مدرسہ کے طلباء میں سے کس کو ترجیح دی جائے؟
۳۔ کیا مجاہدین کو زکوٰۃ دے دینے کے بعد ہم جہاد بالمال کے فرض سے سبکدوش ہو جائیں گے؟ (ڈاکٹر سید شہزاد علی بخاری بخاریز ہسپتال ابو ظہبی روڈ۔ رحیم یا خان) (۲ اگست ۱۹۹۷ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
۱۔ مجاہدین فی سبیل اﷲ پر زکوٰۃ صرف ہو سکتی ہے۔ کیونکہ مصارفِ زکوٰۃ میں یہ شامل ہیں۔
۲۔ زکوٰۃ کے سلسلہ میں مقامی غرباء و مساکین اور غریب طلبۂ مدرسہ مقدم ہیں۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے آپﷺ نے فرمایا تھا:
’ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِیَائِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَی فُقَرَائِهِمْ ۔‘ (صحیح البخاری کتاب الزکاة ،بَابُ وُجُوبِ الزَّکَاةِ،رقم:۱۳۹۵)
’’مقامی مالداروں سے زکوٰۃ وصول کی جائے اور انھی فقراء میں تقسیم کی جائے۔‘‘
ان کی ضروریات سے زائد جہاد فنڈ میں جمع کرا دی جائے۔
۳۔ مجاہدین کو زکوٰۃ دینے سے آپ جہاد میں شریکِ کار سمجھے جائیں گے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب