السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا باپ اپنے ایسے بیٹے کو زکوٰۃ دے سکتا ہے جو ایک عرصے سے باپ سے علیحدہ ہے۔ اس کی کفالت میں نہیں۔ اس کی دینی حالت بھی اچھی نہیں۔ کبھی کبھار نماز میں غفلت کر جاتا ہے۔ وہ کافی عرصہ سے باپ سے علیحدگی اختیار کر چکا ہے۔ا ور اس وقت اس کی مالی حیثیت انتہائی کمزور اور قابلِ رحم ہے؟
(۲) اسی طرح کیا باپ اپنے غریب مستحق داماد کو زکوٰۃ دے سکتا ہے یا نہیں۔ بَیِّنُوْا تُوجرُوْا (۲۱جولائی۱۹۹۵ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
باپ اپنے سے الگ رہنے والے محتاج بیٹے کو زکوٰۃ دے سکتا ہے۔ چنانچہ ’’صحیح بخاری‘‘ میں ہے ایک شخص نے صدقے کا مال مسجد میں رکھا تاکہ کسی مسکین کو دے دیا جائے۔ اتفاقاً اس کے بیٹے نے آکر اٹھا لیا۔ باپ کو معلوم ہوا تو کہا :’وَاللّٰہِ مَا اِیَّاکَ اَرَدْتُ‘ ’’میں نے تجھے دینے کا ارادہ نہیں کیا تھا۔ جب رسول اللہﷺ کے پاس معاملہ آیا تو آپﷺ نے فرمایا:
’لَكَ مَا نَوَیْتَ یَا یَزِیْد وَ لَكَ مَا اَخَذْتَ یَا مَعْنُ ‘(صحیح البخاری،بَابُ إِذَا تَصَدَّقَ عَلَی ابْنِهِ وَهُوَ لاَ یَشْعُرُ ، رقم:۱۴۲۲)
’’ اے یزید تیرے لیے وہ کچھ ہے جو تو نے نیت کی یعنی تیرا صدقہ قبول ہے۔ اور اے معن تیرے لیے وہ کچھ ہے جو (محتاجگی کی صورت میں) تو نے لیا ہے۔ نماز کی غفلت دور کرنے کے لیے مسلسل اسے وعظ و نصیحت کرتے رہنا چاہیے۔
(۲) جب غربت کی صورت میں محتاج بیٹے کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے تو فقر کی صورت میں داماد کو بطریق ِ اولیٰ دینی جائز ہے کیوں کہ وہ اصلاً اجنبی ہے۔ ان قرابت داروں سے نہیں جن کا خرچہ بذمہ سسر ہو بلکہ لڑکی کی شادی کی صورت میں باپ کے ذمہ اس کا خرچہ بھی نہیں رہا۔ اب کلی طور پر لڑکی کے نفقہ کا ذمہ دار شوہر ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب