سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(268) تراویح باجماعت میں مسجد میں پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟

  • 2548
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2349

سوال

(268) تراویح باجماعت میں مسجد میں پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 تراویح باجماعت مسجد میں پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟ اگر نماز تراویح باجماعت مسجد میں پڑھ سکتے ہیں، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے غصہ ہونے کی وجہ کیا ہے؟


 

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تراویح کی نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ جائز بلکہ سنت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں جماعت سے تراویح کی نماز پڑھائی ہے۔ چونکہ نزول قرآن کے زمانہ میں فرض ہونے کا اندیشہ تھا۔ اس لیے مصلحتا ًناراضگی کا اظہار بھی فرمایا۔ مندرجہ ذیل حدیثیں اس کے ثبوت میں کافی و شافی ہیں:
(۱)  عن جبیر بن نفیر عن أبی ذر قال صمنا مع رسول اللّیہ صلی اللہ علیه وسلم فلم یصل بناحتی بقی سبعٌ من الشھر فقام بناحتی ذھب ثلث اللیل ثم لم یقم بنا فی الثالثة وقام بنا فی الخامسة حتی ذھب شطر اللیل فقلنا یا رسول اللّٰہ صلی اللہ علیه وسلم لو نفلتنا بقیة لیلتنا ھذہ فقال إنه من قام مع الامام حتی ینصرف کتب له قیام لیلة ثم لم یقم بناحتی بقی ثلاث من الشھر فصلی بنا فی الثالثة  ودعا أھله ونساء ہ فقام بناحتی تخوفنا الفلاح قلت له ما لافلاح قال السحور رواہ الخمسة و صححه الترمذی
(۲)  عن عائشة أن النبی صلی اللہ علیه وسلم فی المسجد فصلی بصلاته ناس (منتقیٰ) ثم صلی الثالثة فکثر الناس ثم اجتموا من اللیلة الثالثة أو الرابعة فلم یخرج إلیھم رسول اللّٰہ صلی اللہ علیه وسلم فلما أصبح قال رأیت الذی صنعتم فلم یمنعنی من الخروج الیکم إلا أنی خشیت أن تفترض علیکم وذلك فی رمضان (متفق علیه) وفی روایة قال کان الناس یصلون فی المسجد فی رمضان باللیل اوزاعاً یکون مع الرجل الشی من القران فیکون معه النفر الخمسة أو السبعة أو أقل من ذلك  أو أکثر یصلون بصلاته فخرج إلیھم بعد أن صلی عشاء الاخرة فاجتمع إلیه من فی المسجد فصلی بھم وذکرت القصة بمعنی ما تقدم غیر ان فیھا انه لم یخرج إلیھم فی اللیلة الثانیة  (رواہ احمد)
(۳) وفی صحیح مسلم أن رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم خرج لیلة فی جوف اللیل فصلی فی المسجد و علی رجال بصلاته فاصبح الناس فتحد ثوا فاجتمع أکثر منھم فصلی فصلوا معه فاصبح الناس فتحدثوا فکثر أھل المسجد من اللیلة الثالثة فخرج رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فصلی بصلاته فلما کانت الرابعة عجز المسجد عن أھله حتی خرج لصلوة الصبح فلام قضی الصلٰوة اقبل علی الناس فتشھد. ثم قال أما بعد فانه لم نخف علٰی مکانکم ولکن خشیت ان تفترض علیکم فتعجر واعنھا فتوفی رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم والأمر علی ذلك
والحاصل ان الذی دلت علیه أحادیث الباب وما یشا بھما وھو مشروعة القیام فی رمضان والصلٰوة فیه وفرادی نقم الصلاة المسماة با التراویح علی عدد معین و تخصیھا بقرأة مخصوصة لم یرد به سنة  (نیل الاوطار)
عبارت مذکورہ کا مطلب آپ سمجھتے ہی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ناراض ہونے کی وجہ یہی ہے کہ چونکہ نزول وحی کا زمانہ تھا اور یہ عبادت خدا کو محبوب ہے، کہیں فرض نہ ہو جائے، اور فرض ہو جانے کے بعد امت کے لیے بڑی دشواری آئے گی۔ اس لیے آپ نے ناراضگی کا اظہار فرمایا، جیسا کہ احادیث مذکورہ اور دیگر روایات سے پتہ چلتا ہے۔ (مولانا) عبد السلام بستوی شیخ الحدیث مدرسہ ریاض العلوم دہلی ، اہل حدیث دہلی جلد نمبر ۴ ش ۱۳)

قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 02

محدث فتویٰ

تبصرے