سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(355) ساڑھے چھ تولہ سونے پر زکاۃ ادا کرنے کا حکم

  • 25470
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 754

سوال

(355) ساڑھے چھ تولہ سونے پر زکاۃ ادا کرنے کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک صاحبِ نصاب شخص کے پاس ساڑھے چھ تولے یا اس سے زائد وزن کا سونا ہے اور اس پر سال گزر چکا ہے ، وہ زکوٰۃ کس حساب سے ادا کرے گا؟ جب کہ ہمارے ملک میں سونے کے دو ریٹ یعنی قیمت خرید اور قیمتِ فروخت رائج ہیں۔ مثال کے طور پر ایک بندہ ۰۰۰،۵۰ روپے مالیت کا سونا خریدتا ہے اور کچھ عرصے بعد اسے بیچنے کا ارادہ کرے تو سنار اسے کبھی بھی ۰۰۰،۵۰ روپے میں نہیں خریدے گا ، بلکہ لازماً اس کی قیمت کم کرے گا اور قسم قسم کے کاروباری حیلوں سے کام لے گا کہ اس میں اتنا میل ہے اور اتنی پالش۔ اگر بیچنے کے وقت اس سونے کی قیمت ۰۰۰،۴۸ روپے بنتی ہو تو اس صورت میں وہ بندہ کتنی مالیت کے سونے کا مالک ہے ؟ ۰۰۰،۵۰ روپے کا یا ۰۰۰،۴۸ روپے کا ؟ اور وہ زکوٰۃ قیمت ِ خرید کے حساب سے ادا کرے گا یا قیمتِ فروخت کے حساب سے؟ ( ابوعبداللہ۔ مردان) (۱۱ جنوری ۲۰۰۲ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 بالا صورت میں زکوٰۃ تو خالص سونے پر ہی ہے۔ا گر وہ ڈلی کی صورت میں ہے تو اس میں کھوٹ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اور اگر وہ زیور کی صورت میں ہے تو اس کی زکوٰۃ میں فقہائے امت کا اختلاف ہے۔ زیادہ احتیاط و الا مسلک یہ ہے کہ خالص سونے کا حساب لگا کر زیور کی زکوٰۃ ادا کی جائے۔ زکوٰۃ کی ادائیگی میں حساب قیمتِ فروخت کا لگائیں کیونکہ زکوٰۃ دینے والے کی حیثیت زیور کے بائع جیسی ہے۔اس کے عوض میں جو شئے اس نے اللہ سے حاصل کرنی ہے ، وہ جنت ہے۔ قرآن مجید میں ہے:

﴿إِنَّ اللَّهَ اشتَرىٰ مِنَ المُؤمِنينَ أَنفُسَهُم وَأَمو‌ٰلَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الجَنَّةَ...﴿١١١﴾... سورة التوبة

’’اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال خرید لیے ہیں، اس کے عوض میں کہ ان کے لیے بہشت(تیارکی) ہے۔‘‘

اپنے کو کھوٹ کے شبہ سے پاک کرلینا چاہیے، حدیث میں ہے:

’دَعْ مَا یُرِیْبُكَ اِلٰی ماَ لَا یُرِیْبُكَ‘(صحیح البخاری،بَابُ تَفْسِیرِ المُشَبَّهَاتِ،قبل رقم الحدیث:۲۰۵۲، سنن الترمذی،رقم:۲۵۱۸، سنن الدارمی،بَابُ: دَعْ مَا یَرِیبُكَ إِلَی مَا لَا یَرِیبُكَ،رقم:۲۵۷۴، سنن النسائی،رقم:۵۳۹۷)

’’شبہ والی شئے کو چھوڑ کر اس کو اختیار کیا جائے جس میں شبہ نہیں۔‘‘

سلامتی اس میں ہے کہ اللہ سے کھرے مال کا سودا کیا جائے کیونکہ اس کا عوض کھرا ہے اور وہ جنت ہے ،

جس کے اوصاف کریمہ سے کتاب و سنت بھرپور ہیں۔ اللہ رب العزت ہم سب کو جنت الفردوس کا وارث بنائے۔ آمین۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الصوم:صفحہ:303

محدث فتویٰ

تبصرے