السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کتنے مَن جنس پر عُشر واجب ہو جاتا ہے۔ نیز عشر کل پیداوار کا دیا جائے یا پھر جو اپنے حصے میں آئے صرف اُسی کا۔ اگر ساری پیداوار کا دینا ہے تو کیا صرف مالک زمین ہی دے یا مزارع بھی اپنے اپنے حصوں سے۔ (خالد مصطفی ۔ ایس ایس ٹی گورنمنٹ نسیم ہائی سکول حاصلانوالہ تحصیل پھالیہ ضلع گجرات) (۱۷ جنوری ۱۹۹۲)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نہری زمین بیس من سے ایک من اور بارانی دس من سے ایک من عشر ادا کرنا واجب ہے۔ حدیث میں ہے:
’ فِیْمَا سَقَتِ السَّمَاءُ وَالْعُیُونُ اَو کَانَ عَشَرِیًّا الْعشْرُ وَ مَا سُقِیَ بِالنَّضْحِ نِصْفُ الْعُشرِ ‘(صحیح البخاری،بَابُ العُشْرِ فِیمَا یُسْقَی مِنْ مَاء ِ السَّمَاء ِ، وَبِالْمَاء ِ الجَارِی …الخ ،رقم:۱۴۸۳ (ج:۱ ، ص:۲۰۱)
’’ یعنی جس کھیتی کو آسمان یا چشمے پانی پلائیں یا خود زمین کی رگوں سے پانی پیے اس میں عشر ہے اور جس کو اونٹوں وغیرہ سے پانی پلایا جائے اس میں نصف عشر واجب ہے۔‘‘
مالک اور مزارع دونوں اپنے حصص کی نسبت سے عشر ادا کریں۔ قرآن مجید میں ہے:
﴿وَمِمّا أَخرَجنا لَكُم مِنَ الأَرضِ...﴿٢٦٧﴾... سورة البقرة
’’جو کچھ ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالاہے اس سے خرچ کرو۔‘‘
اوردوسری جگہ ہے:
﴿وَءاتوا حَقَّهُ يَومَ حَصادِهِ ...﴿١٤١﴾... سورة الانعام
’’فصل کا حق واجب کٹائی کے دن ادا کرو۔‘‘
ان آیات اور احادیث میں مالک اور مزارع سب کے لیے عشر کی ادائیگی کا عمومی حکم ہے جس کا تقاضا ہے کہ کل پیداوار میں عشر ہو خواہ علیحدہ علیحدہ حصہ نصاب سے کم ہو۔ حدیث میں بکریوں وغیرہ کے متعلق تصریح موجود ہے۔(ملاحظہ ہو کتاب الزکاۃ صحیح بخاری،ج:۱،ص:۱۹۵)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب