سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(287) کیا معتکف ووٹ ڈالنے کے لیے بحالتِ اعتکاف باہر جا سکتا ہے؟

  • 25402
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 932

سوال

(287) کیا معتکف ووٹ ڈالنے کے لیے بحالتِ اعتکاف باہر جا سکتا ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ملکی سطح پر عنقریب قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے یوم موعود ۳ فروری ۱۹۹۷ء ۲۴ رمضان ۱۴۱۷ھ ایام اعتکاف میں واقع ہے۔ کیا معتکف ووٹ ڈالنے کے لیے بحالتِ اعتکاف باہر جا سکتا ہے۔(سائل: عبد الرحمن۔ لاہور) ( ۲۴ جنوری ۱۹۹۷ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اعتکاف عام حالات میں بلاشبہ ایک سنت مؤکدہ ہے عبادت ہے جو قربِ الٰہی کا بہترین ذریعہ ہے۔ شریعت اسلامیہ میں اس کے کچھ آداب اور حدود و قیود ہیں۔ جن کے التزام سے تکمیلی و تحسینی پہلو تک رسائی ممکن ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  سے مروی ہے: فرمایا:

’ السُّنَّةُ عَلَی الْمُعْتَکِفِ: أَنْ لَا یَعُودَ مَرِیضًا، وَلَا یَشْهَدَ جَنَازَةً، وَلَا یَمَسَّ امْرَأَةً، وَلَا یُبَاشِرَهَا، وَلَا یَخْرُجَ لِحَاجَةٍ، إِلَّا لِمَا لَا بُدَّ مِنْهُ ‘(سنن ابی داؤد،بَابُ الْمُعْتَکِفِ یَعُودُ ،رقم:۲۴۷۳)

’’اعتکاف بیٹھنے والے کے لیے سنت طریقہ یہ کے کہ بیمار کی عیادت نہ کرے۔ نہ جنازہ میں شریک ہو۔ نہ عورت کو چھوئے۔ نہ اس سے مباشرت کرے اور کسی ضروری امر کے بغیر جائے اعتکاف سے نہ نکلے۔‘‘

 اور’’صحیح بخاری‘‘میں ہے:

’ وَکَانَ لاَ یَدْخُلُ البَیْتَ إِلَّا لِحَاجَةٍ إِذَا کَانَ مُعْتَکِفًا ۔‘ (صحیح البخاری،بَابٌ: لاَ یَدْخُلُ البَیْتَ إِلَّا لِحَاجَةٍ،رقم:۲۰۲۹)

اور’’صحیح مسلم‘‘میں ہے۔:

’ا إِلَّا لِحَاجَةِ الْإِنْسَانِ ۔‘ (صحیح مسلم،بَابُ جَوَازِ غُسْلِ الْحَائِضِ رَأْسَ زَوْجِهَا وَتَرْجِیلِهِ …الخ ،رقم:۲۹۷)

اس کی تفسیر امام زہری رحمہ اللہ  سے پیشاب اور پاخانہ منقول ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ مالا بد منہ سے مقصود وہ امورِ ضروریہ اضطرار یہ ہیں جن میں انسانی مرضی کو عمل دخل کم ہو اور جہاں تک معتکف کا کسی امید وار کے لیے ووٹ ڈالنے کا تعلق ہے سوا اس بارے میں عرض ہے، بلاشبہ اچھے امید وار کو ووٹ ڈالنا گویا کہ اپنے کو برائی میں شریکِ کار بنانا ہے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ دین پسندوں کی ہر صورت حمایت کی جائے تا کہ الحاد کا غلبہ نہ ہونے پائے لیکن دوسری طرف جس عظیم عبادت میں رب کے حضور مناجات ہیں شخص ہذا مصروفِ کار ہے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ فعلِ ہذا کو آغاز کے بعد ترک نہ کیا جائے۔ اس سلسلہ میں میری رائے یہ ہے کہ جس حلقہ انتخاب میں امید وار اچھی شہرت کا حامل ہو وہاں تکثیر افراد کے بجائے حتی المقدور تقلیل کو اختیار کیا جائے یعنی کم لوگ اعتکاف بیٹھیں اور بیٹھنے والے نصرتِ اسلام کے لیے دعاء گوہوں اور جس حلقہ میں لٹیرا ا یا لوٹا ازم کا حامی امید وار ہو۔ اس کی حمایت و نصرت کی بجائے کثرت سے لوگ اعتکاف کر کے فتنہ ہذا کے قلع قمع کے لیے رب کے حضور دعا گو ہوں۔ لیکن عمل اعتکاف کو شروع کرنے کے بعد محص ووٹ ڈالنے کے لیے ترک نہ کیا جائے۔ ایسا کرنے سے اعتکاف باطل ہو جائے گا۔

قرآنِ مجید میں ہے:

﴿ يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّسولَ وَلا تُبطِلوا أَعمـٰلَكُم ﴿٣٣﴾... سورة محمد

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الصوم:صفحہ:275

محدث فتویٰ

تبصرے