سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(258) روزہ کی افطاری غروبِ آفتاب پر یا رات ہونے پر کی جائے؟

  • 25373
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2181

سوال

(258) روزہ کی افطاری غروبِ آفتاب پر یا رات ہونے پر کی جائے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے یہاں بعض لوگوں نے مخصوص لوگوں میں پمفلٹ تقسیم کیے جس میں یہ تحریر ہے:

’’قرآن میں غروبِ آفتاب پر روزہ کھولنے کا حکم نہیں بلکہ رات ہونے پر کھولنے کا حکم ہے۔ غروب آفتاب دن کے بارہویں حصے کا نام ہے۔ غروب آفتاب پر روزہ افطار کرنے کا مطلب، دن کے آخری حصے میں روزہ کھولنا ہے۔

’لیل‘ ’غسق‘ سے شروع ہوتی ہے۔ جب مشرق کی جانب سرخی جاتی رہے اور سیاہی ادھر سے پھیل کر سر کے اوپر سے گزر جائے تو روزہ افطار کرلو۔‘‘ مندرجہ بالا تحریر کا جائزہ لیجیے۔ (سائل: قاری عبدالرحمن صدیقی، لاہور)(۲۱ ستمبر ۲۰۰۷ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مدعی کا دعویٰ بڑا عجیب سا ہے آج تک کسی کو اس بے تکے فلسفہ کی مو شگافی کی جرأت نہیں ہوسکی۔ ذوی العقول جانتے ہیں کہ سورج کے مغرب میں غروب ہوجانے کا نام غروبِ آفتاب ہے۔ قرآن میں ہے:

﴿وَجَدَها تَغرُبُ فى عَينٍ حَمِئَةٍ...﴿٨٦﴾... سورة الكهف

’’تو اسے پایا کہ ایک کیچڑ کی ندی میں ڈوب رہا تھا۔‘‘

قرآنی آیت ﴿ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی اللَّیْلِ﴾ کا مفہوم بھی یہی ہے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

’’ قرآن کی آیت اس بات کی متقاضی ہے کہ غروبِ شمس پر روزہ افطار کرنا شرعی حکم ہے جس طرح صحیحین کی حدیث میں ہے:

’إِذَا أَقْبَلَ اللَّیْلُ مِنْ هَا هُنَا، وَأَدْبَرَ النَّهَارُ مِنْ هَا هُنَا، وَغَرَبَتِ الشَّمْسُ فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ‘متفق علیه، (صحیح البخاری،بَابٌ: مَتَی یَحِلُّ فِطْرُ الصَّائِمِ،رقم:۱۹۵۴، صحیح مسلم،بَابُ بَیَانِ وَقْتِ انْقِضَاء ِ الصَّوْمِ وَخُرُوجِ النَّهَارِ،رقم:۱۱۰۰)

’’یعنی جب مشرق میں رات چھا جائے اور ادھر دن غروب ہوجائے تو روزے دار کی افطاری کا وقت ہوگیا۔‘‘

اور ’’حاکم‘‘ وغیرہ میں ہے: 

’ لَا تَزَالُ أُمَّتِی عَلَی سُنَّتِی مَا لَمْ تَنْتَظِرْ بِفِطْرِهَا النُّجُومَ۔‘ (المستدرک علی الصحیحن للحاکم،رقم:۱۵۸۴،نیل الاوطار،ج:۴،ص:۲۶۰)

’’میری امت ہمیشہ میری سنت پر قائم رہے گی جب تک اپنی افطاری میں ستاروں کے نکلنے کا انتظار نہ کرے۔‘‘

یہ نصوص اور دیگر روایات اس بات پر دال ہیں کہ روزہ جلدی افطار کرنا چاہیے اور یہ کہنا کہ ’’لیل‘‘ ’’غسق‘‘ سے شروع ہوتی ہے محض ادعاء ہے حالانکہ غسق مطلق رات کے اندھیرے کو کہا جاتا ہے۔ جس میں وقت کی تخصیص نہیں ہاں البتہ عمر  رضی اللہ عنہ  کی ایک روایت میں غسق کا ذکر ہے تاہم کثیر روایات کے مقابلہ میں یہ مرجوح ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الصوم:صفحہ:252

محدث فتویٰ

تبصرے