سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(253) افطاری کی دعا والی حدیث کی استنادی حیثیت کیا ہے ؟

  • 25368
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1499

سوال

(253) افطاری کی دعا والی حدیث کی استنادی حیثیت کیا ہے ؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

افطاری کی دعا ’اَللّٰهُمَّ لَكَ صُمْتُ وَ عَلٰی رِزْقِكَ اَفْطَرْتُ‘ کی استنادی حیثیت کیا ہے ؟ بعض کتابچوں میں الفاظ ’ وَ بِكَ اٰمَنْتُ وَ عَلَیْكَ تَوَکَّلْتُ بِمَا قَدَّمْتُ وَ اَخَّرْتُ ‘  بھی لکھے ہوتے ہیں۔ کیا یہ کسی حدیث کی کتاب میں ہیں؟ اگر نہیں ہیں تو کیوں لکھے جاتے ہیں؟ (صبغت اللہ صابر بلوچ، کراچی) (۱ فروری ۲۰۰۲ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اصلاً یہ روایت ’’سنن ابی داؤد‘‘ میں مرسل ہے لیکن شواہد کی بناء پر اس کو تقویت حاصل ہے۔ (المشکاۃ المصابیح للالبانی)۶۳/۱( الفصل الثانی، رقم: ۱۹۹۴" اور ’وَ بِكَ اٰمَنْتُ…الخ‘ کے الفاظ بے اصل ہیں، جہالت اور لاعلمی کی بناء پر لوگ یہ لکھتے ہیں۔

’’الاعتصام‘‘ کے ایک فتوے پر نظر(از عبداللہ محمدی کھپرا):

گزشتہ دنوں ہفت روزہ’’ الاعتصام‘‘ میں ایک فتویٰ شائع ہوا جس کا عنوان یہ تھا تحقیق روایت

’اَللّٰهُمَّ لَكَ صُمْتُ وَ عَلٰی رِزْقِكَ اَفْطَرْتُ‘۔

فتوی یہ دیا گیا کہ دراصل یہ روایت ’’سنن ابی داؤد‘‘ میں مرسل ہے۔ لیکن شواہد کی بناء پر اس کو تقویت حاصل ہے۔

یہ بات ممکن ہے کہ اس فتوے کی بنیاد شیخ البانی رحمہ اللہ کی تحقیق پر ہو ، کیونکہ شیخ البانی رحمہ اللہ  نے صاحب ’’مشکوٰۃ‘‘ کے اسی قول پر ’رَوَاہُ اَبُودَاؤدَ مُرْسَلًا ‘ (ابوداؤد نے اس کو مرسل بیان کیا ہے) حاشیہ لگاتے ہوئے کہا ہے:’لٰکِنْ لَهُ شَوَاهِدٌ یَقْوَی بِهَا ‘

’’لیکن اس کے شواہد ہیں جو اس کو تقویت پہنچاتے ہیں۔‘‘

لیکن اس کے جو شاہد ہی سخت ضعیف ہیں اس وجہ سے اس کو تقویت نہیں ملتی۔

اب اس حدیث کی مفصل تخریج اور اس کے شواہد کی تفصیل ملاحظہ ہو۔ تاکہ آپ کو افطار کی اس دعا کا صحیح علم ہو۔ یہ روایت ’’سنن ابی داؤد‘‘(رقم الحدیث: ۲۳۵۸) مراسیل ابی داؤد(ص:۱۰۸) کتاب الزہد(رقم نمبر:۱۴۱۰) ’’مسند ابن ابی شیبہ‘‘ (ج:۳،ص۱۰۰) اور ’’سنن بیہقی‘‘ (ج:۴،ص:۲۳۹) میں حصین بن عبدالرحمن کے واسطے سے معاذ بن زہرہ سے مروی ہے۔ یہ روایت مندرجہ ذیل علتوں کی وجہ سے ضعیف ہے۔‘‘

۱۔         معاذ زھرہ: ان کو معاذ ابوزہرہ بھی کہا گیا ہے۔ تابعی ہیں، بعض نے ان کو صحابہ میں شمار کیا ہے مگر یہ وہم ہے ، دیکھئے’’تہذیب التہذیب‘‘ (ج:۱۰،ص:۱۷۲) اور’’تقریب التہذیب‘‘ (ج:۲،ص:۲۵۶)

تنبیہ: ’’تقریب‘‘ کے ایک نسخے میںکتابت کی غلطی کی وجہ سے معاذ بن زہیرہ چھپ گیا ہے۔ دراصل معاذ بن زہرہ ہے اور تابعی ہے، اس وجہ سے ان کی روایت رسول اللہﷺ سے بلا واسطہ مرسل کہلائے گی اور مرسل روایت محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔

۲۔        معاذ کی ’’ابن حبان‘‘ کے علاوہ کسی اور نے توثیق نہیں کی اور ان سے صرف حصین بن عبدالرحمن نے روایت کی ہے۔ لہٰذا یہ مجہول( غیر معروف) راویوں کے زمرے میںآتے ہیں۔

۳۔        اس کی سند اور متن میں اختلاف ہے۔ سند میں اختلاف اس طرح ہے کہ ایک جماعت نے (جو ہشیم، ابن المبارک، مبشر بن قاسم اور محمد بن فضیل) پر مشتمل ہے۔ اسے حصین عن معاذ روایت کیا ہے ،جب کہ سفیان ثوری نے اس کو حصین سے روایت کرتے ہوئے حصین اور معاذ کے درمیان ایک نامعلوم شخص کا واسطہ ذکر کیا ہے۔ثوری کے طریق سے اس کو ابن السنی(۴۷۹) نے اور خطیب بغدادی نے’’تاریخ بغداد(۹۵/۱۲) میں روایت کیا۔

ثوری نے اس کو ان الفاظ میں روایت کیا ہے:’اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ أَعَانَنِی فَصُمْتُ، وَ رَزَقَنِیْ فَأَفْطَرْتُ۔اور یہ متن میں اختلاف ہوا۔

’’تاریخ بغداد‘‘ میں ان معاذ کو معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ  کہا گیا ہے جب کہ ابن السنی کے دو نسخوں( بتحقیق عبدالقادر عطاء و تحقیق سالم سلفی) میں صرف معاذ ہے ولدیت مذکور نہیں، مگر سلفی کے نسخے میں ’’رضی اللہ عنہ‘‘ بھی لکھا گیا ہے۔ گویا ان سے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ  ہی سمجھا گیا۔ ابن السنی کے تیسرے نسخے میں( جو بشیر محمد عیون کی تحقیق سے چھپا ہے) معاذ کے بعد بریکٹوں میں بن زہرہ لکھا ہوا ہے اور یہی صحیح ہے کیونکہ یہ معاذ، معاذ بن زھرہ تابعی ہے۔ معاذ بن جبل صحابی نہیں۔

امام نووی رحمہ اللہ  نے ’’الاذکار‘‘ میں اس حدیث کو ’’ابن السنی‘‘ کے حوالے سے معاذ بن زھرہ ہی کے نام سے ذکر کیا ہے۔ابن صاعد کہتے ہیں کہ یہ معاذ بن جبل نہیں بلکہ معاذ بن ابو زہرہ ہیں۔ اسی طرح حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  نے’’النکت الظراف‘‘ میں کہا ہے کہ بعض نے ان کو معاذ بن جبل سمجھا ہے ، جو درست نہیں۔ اس حدیث کو عبدالعزیز بن مسلم القسملی نے بھی حصین بن عبدالرحمن سے روایت کیا ہے اور انھوں نے معاذ کی بجائے محمد بن معاذ کہا ہے اور یہ حدیث اسی طریق سے امام بخاری رحمہ اللہ  نے’’التاریخ الکبیر‘‘ (ج:۱،ص:۲۲۷) میں روایت کی ہے۔ معاذ کی بجائے محمد بن معاذ کہنا عبدالعزیز کا وہم ہے۔ ان کے بارے حافظ ابن حبان کہتے ہیں کہ بعض اوقات ان کو وہم ہوتا ہے اور بہت بڑی غلطی کر جاتے ہیں۔ دیکھئے:’’تہذیب التہذیب‘‘(ج:۶،ص:۳۱۸)

تنبیہ: ’’ابن ابی شیبہ‘‘ کے دو نسخوں میں اس حدیث کے راوی کا نام معاذ بن زھرہ کے بجائے ابوہریرہ ہے جو صحیح نہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  نے اسی حدیث کو ’’النکت الظراف‘‘ میں’’ابن ابی شیبہ‘‘ سے معاذ ہی کے نام سے ذکر کیا ہے ۔ ’’ابن ابی شیبہ‘‘ ، طبع ہند میں جو غلطیاں ہیں وہی ’’دار التاج بیروت‘‘ کی طبع میں بھی ہیں۔

حاصل کلام: یہ حدیث معاذ بن زہرہ سے ہے اور ضعیف ہے۔ یہ دعا حدیث انس رضی اللہ عنہ اور حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما  سے بھی مروی ہے۔

حدیث انس  رضی اللہ عنہ  کو ’’طبرانی‘‘ نے المعجم الصغیر(ج:۲،ص:۵۱،۵۲) اور ’’ الدعائ‘‘ (ص نمبر:۹۱۸) میں روایت کیا ہے۔ صغیر میں اس کے شروع میں بسم اللہ کا اور آخر میں ان الفاظ کا اضافہ بھی ہے:

’تَقَبَّلْ مِنِّیْ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْم‘

مگر اس کی سند سخت ضعیف ہے۔ اس میں دو علتیں ہیں:

۱۔         اسماعیل بن عمرو البجلی:یہ ضعیف ہے۔ اس کو ’’ابوحاتم ابن عدی‘‘ اور ’’دارقطنی‘‘ وغیرہ نے ضعیف کہا ہے۔ ملاحظہ ہو :میزان الاعتدال (ج:۱،ص:۲۳۹) ، دیوان الضعفائ(ج:۱،ص:۸۸) اور المغنی فی الضعفاء (ج:۱،ص:۸۵)

۲۔        اس حدیث میں اسماعیل بن عمرو کا استاد داؤد الزبرقان ہے۔ ذہبی رحمہ اللہ  نے اس کے بارے میں ’’الکاشف‘‘ میں کہا ہے کہ’ضَعَّفُوْہ‘  یعنی یہ سخت ضعیف ہے۔ کیونکہ ’ وَاه بِمَرَّةٍ لَیْسَ بِشَیْئٍ ضَعِیْفٌ جِدًا اور ’ضَعَّفُوْہُ ‘ وغیرہ سب ایک ہی درجے کے الفاظ ہیں۔ دیکھئے ’’مقدمۃ میزان الاعتدال‘‘ (ج:۱،ص:۴)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ راوی متروک ہے اور ازدی نے ان کو کذاب کہا ہے۔ دیکھئے، تقریبا،ص:۹۵۔ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما  کو طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘(ج:۱۲،ص:۱۴) میں ’’ابن السنی‘‘ نے(۴۸۰) اور ’’دارقطنی‘‘(ج:۲،ص:۱۸۵) نے روایت کیا ہے۔ اور اس کی سند بھی سخت ضعیف ہے بلکہ موضوع ہے۔ کیونکہ اس کی سند میں ایک راوی عبدالملک بن ہارون ہے۔ یحییٰ بن معین نے اس کو ’’کذاب‘‘ ابو حاتم نے ’متروک الحدیث، ذَاھِب الحدیث‘ اور جوزجانی نے ’’دجال کذاب‘‘ کہا ہے۔ سعدی نے ’’دجال‘‘ کہا ہے۔ دیکھئے : الجرح والتعدیل (ج:۵،ص:۲۷۴) احوال الرجال لجوزجانی(ص:۷۷) اور دیوان الضعفاء للذہبی(ج:۲،ص:۱۲۸) اور ابن حبان نے کہا ہے کہ یہ حدیثیں گھڑنے والوں میں سے ہے۔ المجروحین،ج:۲،ص:۱۳۳

ذہبی رحمہ اللہ  نے ’’میزان الاعتدال‘‘(ج:۴،ص:۲۸۵) میں اس کے باپ ہارون کے تذکرے میں اس کے بارے میں کہا ہے کہ:’اَمَّا اِبْنہ عبدالملک  فَمَتْرُوْکٌ یَکْذِبُ۔‘’’یعنی وہ متروک ہے اور جھوٹ بولتا تھا۔‘‘

’’الکاشف‘‘(ج:۳،ص:۱۸۹) میں ہارون کے ترجمہ میں کہا ہے : ’’اس کا بیٹا عبدالملک ہالک ہے۔‘‘ احمد، یحییٰ بن معین، ابوحاتم، ابن حبان اور دارقطنی نے ان پر سخت جرح کی ہے جیسا کہ ’’میزان (ج:۲،ص:۶۶۶) میں ہے۔

مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ اس کی سند سخت ضعیف ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  نے ’’نتائج الافکار‘‘ میں اس کی سند کے بارے میں کہا ہے کہ ’وَسَنَدُہُ وَاہٍ جِدًا۔‘  اس کی سند انتہائی ضعیف ہے۔ ملاحظہ ہو: المفتوحات الربانیہ(ج:۴،ص:۳۴۱)

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ ان دونوں حدیثوں کی سندیں سخت ضعیف ہیں،اس وجہ سے شواہد بننے کے قابل نہیں۔ لہٰذا مذکورہ حدیث ضعیف ہے۔

تنبیہ: ’’ابن السنی‘‘کے محقق بشیر محمد عیون نے ’’معاذ بن زہرہ‘‘کی حدیث کی تخریج میں مرسل کہنے کے بعد کہا ہے: ’’مگر شواہد ہیں، جن کی بناء پر حدیث قوی ہوجاتی ہے۔ دیکھئے :ارواء الغلیل(نمبر:۹۱۹) اس کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخ نے ’’ارواح ‘‘میںشواہد کی بناء پر اس حدیث کو قوی کہا ہے حالانکہ انھوں نے اس حدیث کو بھی ضعیف کہا ہے۔ (شکریہ از مفتی صاحب)( ۵ اپریل ۲۰۰۲ء)

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الصوم:صفحہ:248

محدث فتویٰ

تبصرے