سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(252) روزہ کی نیت کے الفاظ اور افطاری کی مشارٌ الیہ دعائیں ثابت ہیں یا نہیں؟

  • 25367
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2170

سوال

(252) روزہ کی نیت کے الفاظ اور افطاری کی مشارٌ الیہ دعائیں ثابت ہیں یا نہیں؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

روزہ رکھنے کی نیت دعا ’وَ بِصَوْمِ غَدٍ نَوَیْتُ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ ‘ اور اسی طرح روزہ افطار کرتے وقت پڑھی جانے والی معروف دعا۔ ’اَللّٰهُمَّ لَكَ صُمْتُ وَ بِكَ آمَنْتُ وَ عَلَیْكَ تَوَکَّلْتُ وَ عَلٰی رِزْقِكَ اَفْطَرْتُ‘ کسی حدیث صحیح سے ثابت ہے یا نہیں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔ والسلام (سائل حافظ محمدمنیر جاوید،وڈانہ) (۹ فروری ۱۹۹۶ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اوّل الذکر دونوں دعاؤں کے بارے میں علامہ ملاّ علی قاری حنفی نے ’’المرقاۃ‘‘ میں اس بات کی تصریح کی ہے کہ :

’’شرع میں ان کا کوئی اصل نہیں اگرچہ معنی اس کادرست ہے۔ اسی طرح ’وَ عَلَیْكَ تَوَکَّلْتُ لِصَوْمِ غَدٍ نَوَیْتُ ‘  زبانی نیت کرنا بدعت حسنہ ہے۔‘‘

مذکور عبارت پر نقد کرتے ہوئے صاحب ’’المرعاۃ‘‘ رقمطراز ہیں:

’’ نماز روزہ کے لیے زبانی نیت کرنے کا کتاب و سنت اور کسی صحابی سے اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ یہ محض رائے اور بدعتِ سَیّئہ ہے جس کا ترک ضروری ہے۔‘‘ (۲۲۶/۳)

اور روزہ کی افطاری کے وقت آخر الذکر دعاء یعنی ’اَللّٰهُمَّ لَكَ صُمْتُ… الخ‘ ’’سنن ابو داؤد‘‘ اور ’’المراسیل‘‘ میں موجود ہے۔

صاحب ’’المرعاۃ‘‘ نے روایت ہذا کو فی الجملہ قابلِ تمسّک سمجھا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’وَهُوَ مَعَ اِرْسَالِهٖ حُجَّة فِیْ مِثْلِ ذٰلِكَ۔‘

البتہ علامہ البانی نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے۔ ملاحظہ ہو۔ ارواء الغلیل(۳۸/۴۔۳۹) واضح ہو کہ ’’سنن ابی داؤد‘‘  وغیرہ میں افطاری کے وقت پڑھنے کی ایک اور دعاء بھی مرقوم ہے جس کے الفاظ یوں ہیں:

’ ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ وَ ثَبَتَ الْاَجْرُ اِنْ شَاءَ اللّٰهُ ۔‘ (سنن الدارقطنی، بَابُ الْقُبْلَةِ لِلصَّائِمِ،رقم:۲۲۷۹، سنن أبی داؤد،بَابُ الْقَوْلِ عِنْدَ الْإِفْطَارِ،رقم: ۲۳۵۷)

علامہ موصوف نے حدیث ہذا کو حسن قرار دیا ہے۔ (ارواء الغلیل:۳۹/۴)

’’منار السبیل‘‘ اور ’’الکلم الطیب‘‘ وغیرہ میں مزید دعائیں بھی ابن عمر رضی اللہ عنہما  اور ابن عباس رضی اللہ عنہما  کی روایات میں موجود ہیں لیکن سندوں کے اعتبار سے وہ بھی ضعیف ہیں۔ علامہ البانی ’’الکلم الطیب‘‘ کے حواشی پر فرماتے ہیں:

’وَالثَّابِتُ فِیْ هٰذَا الْبَابِ ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ وَ ثَبَتَ الْاَجْرُ اِنْ شَاءَ اللّٰهُ تَعَالٰی ۔‘ (ص: ۹۲)

 یعنی اس بیان میں جو شئے ثابت ہے وہ یہ دعا ہے:

’ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ وَ ثَبَتَ الْاَجْرُ اِنْ شَاءَ اللّٰهُ تَعَالٰی ۔‘(السنن الکبرٰی للنسائی،بَابُ مَا یَقُولُ إِذَا أَفْطَرَ،رقم:۳۳۱۵،سنن الدارقطنی،بَابُ الْقُبْلَةِ لِلصَّائِمِ،رقم: ۲۲۷۹)

یعنی پیاس جاتی رہی اور رگیں تَر ہو گئیں اور اجر و ثواب یقینا ثابت شدہ ہے۔‘‘ ان شاء اللہ تعالیٰ

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الصوم:صفحہ:246

محدث فتویٰ

تبصرے