سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(251) ایک فتوے کے متعلق استفسار

  • 25366
  • تاریخ اشاعت : 2024-09-17
  • مشاہدات : 718

سوال

(251) ایک فتوے کے متعلق استفسار

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

’’الاعتصام‘‘ کی جلد نمبر ۵۳ کے شمارہ نمبر ۷(۲۳ فروری تا یکم مارچ ۲۰۰۱ئ) کے ص:۱۱ پر قربانی کے ضروری مسائل : سوال ہے کہ عرفہ کا روزہ کس دن رکھنا چاہیے؟ تو آپ نے سعودیہ کے یوم حج کو معتبر قرار دیا ہے۔ اس پر گزارش ہے کہ:

یہ بات تب ممکن ہے کہ پوری امت مسلمہ کی رؤیت ہلال ایک ہی ہو۔ عام حالات میں ہمارا یکم رمضان المبارک ہمارا یوم النحر( عید قربان) رمضان المبارک کی طاق راتیں(شب قدر) آخری عشرہ( اعتکاف) عید الفطر، عید الاضحی طرح کی تمام تر عبادات جو تاریخ(مہینہ و دن) یا وقت کے اعتبار سے مقرر ہیں ہر صورت سعودیہ سے مختلف ہیں تو اس میں کیا حرج ہے ؟ کیا ان میں مطابقت ضروری نہیں ہے ؟ یوم عرفہ میں مطابقت کیونکر ضروری ہے ؟ اگر ضروری ہے تو دوسری عبادات میں مطابقت کو مقدم کیوں نہیں سمجھا جاتا؟ ( حافظ محمد اسحاق۔ خانقاہ ڈوگراں ، شیخوپورہ) (۲۸ ستمبر ۲۰۰۱ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اصل بات یہ ہے کہ یوم عرفہ کے روزے کا تعلق وقت اور جگہ دونوں سے ہے۔ اس بناء پر اعتبار ان اوقات کا ہو گا جن میں حاجی عرفات میں وقوف کرتا ہے۔ اگرچہ حاجی کے لیے روزہ رکھنا غیر درست ہے ا ور جہاں تک سوال میں ذکر کردہ دیگر عبادات و معاملات کا تعلق ہے سو یہ صرف زمانے کے متعلق ہیں۔ لیل و نہار کی گردش سے ان کے اوقات بدلتے رہتے ہیں، مثلاً سورج کھڑا ہو تو کوئی نہیںکہتا مغرب کا وقت ہو گیا لیکن جس مقام پر بالفعل غروب ہو چکا ہے وہاں نماز کی ادائیگی ضروری ہے۔ اس طرح کبھی کسی نے یہ نہیں کہا سعودی عرب میں حج گزشتہ روز ہو چکا مگر ہمارا حج کل ہے کیونکہ ہمارے ہاں ذوالحجہ کی نو تاریخ کل ہے سب یہی کہیں گے حج ہماری آٹھویں اور سعودیہ کی نویں تاریخ کو ہوچکا ہے۔ لہٰذا اعتبار سعودیہ کی نو تاریخ کا ہوا کیونکہ یہ واقعہ کے مطابق ہے جب کہ ہماری نویں تاریخ حقائق کے منافی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ دیگر امور کو حج پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الصوم:صفحہ:246

محدث فتویٰ

تبصرے