السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
﴿وَ عَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَهٗ فِدْیَةٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ ﴾میں آیا ہر روزہ کے بدلہ ایک وقت کا کھانا کھلانا ہے یا کہ دو وقت کا ؟ دلیل؟
کیا کسی مسکین کو اکٹھی رقم بھی ان کھانوں کے بدلے میں دی جا سکتی ہے؟ (۲۶ جولائی ۱۹۹۶ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یومیہ فدیے کا اندازہ کل ایک مُدّ غلہ یعنی چوتھائی صاع ہے۔ اور صاع تقریباً پونے تین سیر ہوتا ہے۔امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’مُدٌّ بِمُدِّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْ کُلِّ یَوْمٍ أَفْطَرَهُ، وَبِهِ قَالَ الشَّافِعِیُّ. وَقَالَ أَبُو حَنِیفَةَ: کَفَّارَةُ کُلِّ یَوْمٍ صَاعُ تَمْرٍ أَوْ نِصْفُ صَاعِ بُرٍّ۔‘ (تفسیر قرطبی:۲۸۹/۲)
’’یعنی ہر روزے کے بدلے ایک مد نبیﷺ کے مد کے مطابق غلہ دیا جائے اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کھجور کا ایک صاع اور گندم کا نصف صاع دیا جائے۔
رقم کے بجائے غلہ دینا افضل ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب