السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
برائے ایصالِ ثواب قرآن خوانی کرانے کا شریعت میں کیا حکم ہے؟ ( سید توصیف الرحمن زیدی) (۲۰ ستمبر ۱۹۹۱ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
برائے ایصالِ ثواب قرآن خوانی کرانے کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں۔ لہٰذا یہ بدعت ہے۔ صحیح حدیث میں ہے:
’ مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا هٰذَا مَا لَیْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ ‘(صحیح البخاری،بَابُ إِذَا اصْطَلَحُوا عَلَی صُلْحِ جَوْرٍ فَالصُّلْحُ مَرْدُودٌ،رقم:۲۶۹۷)
’’ یعنی جو دین میں اضافہ کرے وہ مردود ہے۔‘‘
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے بھی’’زاد المعاد‘‘ میں اس کو ناجائز کہا ہے۔ صاحب ’’المرعاۃ‘‘ فرماتے ہیں:
’’اہدائے ثواب قرآن علمیت میرے نزدیک صراحۃً کسی مرفوع صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ نیز صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین رحمہم اللہ سے بھی ثابت نہیں۔ اس لیے مجھے اس کی مشروعیت میں تأمل ہے۔‘‘ (فتاویٰ ثنایہ:۵۳۲/۱)
اور علامہ علی المتقی صاحب’’کنزالعمال‘‘ فرماتے ہیں:
’ اَلاَوَّلُ الْاِجْتِمَاعُ لِلْقِرَائَةِ بِالْقُرْاٰنِ عَلَی الْمَیِّتِ بِالتَّخْصیْصِ فِی الْمَقْبَرَةِ اَوِ الْمَسْجِدِ اَوِ الْمَیِّتِ بِدْعَةٌ مَذْمُوْمَةٌ ‘فتاویٰ علمائے حدیث:۵/۳۵۲
’’ یعنی میت کے لیے قرآن خوانی بالخصوص قبرستان، مسجد، گھر میں مذموم بدعت ہے۔‘‘
۲۔ بطورِ برکت گھر میں بچوں کو جمع کرکے قرآن پڑھانا بھی شریعت ِ مطہرہ سے ثابت نہیں ۔ لہٰذا فعل ہذا سے بھی احتراز ضروری ہے۔
ھذا ما عندی والله أعلم بالصواب