السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آج کل بعض اہل حدیث بھی فوت ہونے کے بعد وارثانِ میت ایک دن مقرر کرکے عوام کو اطلاع دے کر بلا کر دیگیں وغیرہ کھانا پکا کر ایصالِ ثواب کر لیا کرتے ہیں کیا یہ وہی بدعتی ٹولہ کے عمل کے مطابق نہیں جو چالیسواں وغیرہ کہہ کر کرتے ہیں؟ بَیِّنُوْا بِالدَّلِیْلِ تُوجرُوْا مِنَ اللّٰهِ الْجَلِیْلِ (احقر عبدالغفور وٹو،شیخوپورہ) (یکم اکتوبر۱۹۹۳ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
میت کو ایصالِ ثواب کا یہ طریقہ درست نہیں ہے اس لیے کہ کتاب و سنت اور سلف صالحین کے عمل سے اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ارشاد نبویﷺ ہے:
’ مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا هٰذَا مَا لَیْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ ‘(صحیح البخاری،بَابُ إِذَا اصْطَلَحُوا عَلَی صُلْحِ جَوْرٍ فَالصُّلْحُ مَرْدُودٌ،رقم:۲۶۹۷)
’’ یعنی جو دین میں اضافہ کرے وہ مردود ہے۔‘‘
ھذا ما عندی والله أعلم بالصواب