وضو شروع کرنے سے پہلے ہاتھ منہ اور پاؤں کا دھونا اور وضوء میں ترتیب کا خیال نہ رکھنا اور اعضاء وضوء تین سے زیادہ مرتبہ دھونا اور وضوء پندرہ بیس منٹ میں کرنا کیسا ہے؟
_________________________________________________________________
وضو شروع کرنے سے پہلے ہاتھ منہ اور پاؤں کو دھونا کسی خاص ضرورت کے تحت ہو تو معاملہ دوسرا ہے ،اسے وضو کا مسئلہ بنانا درست نہیں کیونکہ ایسا کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مثلاً عبداللہ بن زید بن عاصم مازنی ، عبداللہ بن عباس اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضوء میں ترتیب کا ذکر فرمایا ہے ۔ اس لیے وضوء میں ترتیب کا خیال و اہتمام کرنا ہو گا۔ اعضاء وضوء کو تین تین دفعہ سے زیادہ دھونا ممنوع و گناہ ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کے متعلق تین لفظ استعمال فرمائے ہیں : «فَقَدْ أَسَاء وَتَعَدّٰی وَظَلَمَ» کہ انہوں نے برا کیا ، زیادتی کی اور ظلم کیا ۔‘‘ (أبو داؤد،الطہارة، باب الوضوء ثلاثاً ثلاثًا)
وضوء کی تکمیل پر وقت کی تحدید اور تعیین کہیں نہیں آئی ، نہ پندرہ منٹ کی، نہ بیس منٹ کی اور نہ ہی پانچ دس منٹ کی ، ہاں احسان وضوء اور اسباغ وضوء کی ترغیب احادیث میں موجود ہے۔[رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتاؤں کہ جس کے سبب اللہ تعالیٰ گناہوں کو دور کرتا ہے اور درجات کو بلند کرتا ہے۔‘‘ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم!ارشاد فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مشقت(بیماری یا سردی) کے وقت کامل اور سنوار کر وضوء کرنا، کثرت سے مسجدوں کی طرف جانا اور نماز کے بعد نماز کا انتظار کرنا۔ ( مسلم،الطہارة، باب فضل اسباغ الوضوء علی المکاره)