سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(182) زیارتِ قبور کے شرعی احکامات کیا ہیں ؟ کیا والدین کی قبروں کی زیارت کرنی چاہیے یا نہیں؟

  • 25297
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1767

سوال

(182) زیارتِ قبور کے شرعی احکامات کیا ہیں ؟ کیا والدین کی قبروں کی زیارت کرنی چاہیے یا نہیں؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 قبور پر جانے کے متعلق جو احکامات ِ شرعی ہیں وہ کیا ہیں کیا کبھی اپنے والدین کی قبور پر جانا چاہیے کہ نہیں اگر جانا چاہیے تو کیا کرنا چاہیے؟

عام قبرستان سے گزرتے ہوئے کیا کرناچاہیے؟ میرے علم کے مطابق عورتوں کا قبور پر جانا منع ہے اہل بدعت یہ تاویل کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  اپنے خاوند اور اپنے والد کے روضۂ مبارک پر جاتی تھیں اس مسئلہ کے متعلق ارشاد فرمائیں۔ ( خادم، قمر آصف شاہ) (۱۹ مارچ ۱۹۹۳ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قبروں کی زیارت کی زیارت کرنا مشروع ہے۔ اس سے آخرت یاد آتی ہے اور دنیا سے بے رغبتی پیدا ہوتی ہے۔ بعض روایات میں موجود ہے کہ میں نے تمھیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا مگر اب زیارت کرو کیونکہ اس سے موت یاد آتی ہے اور باعث عبرت بھی ہے۔ (سنن ابن ماجہ،بَابُ مَا جَاء َ فِی زِیَارَۃِ قُبُورِ الْمُشْرِکِینَ،رقم:۱۵۷۲)

شریعت میں مسلمانوں کی قبروں کی زیارت کا چونکہ عمومی اِذن موجود ہے اس میں والدین بھی شامل ہیں لہٰذا ان کی قبروں پر جا کر بھی دعائِ رحمت و استغفار ہونی چاہیے بشرطیکہ وہ اہل توحید ہوں ورنہ نہیں۔ نیز راجح مسلک کے مطابق عورتوں کو بھی زیارتِ قبور کی اجازت ہے بشرطیکہ وہاں جزع و فزع کا اظہار نہ کریں۔ چند روایات ملاحظہ فرمائیں:

۱ ۔ نبی ﷺ کا گزر ایک عورت کے پاس ہوا جو قبر پر بیٹھی رو رہی تھی تو آپ نے فرمایا:

’اِتَّقِی اللّٰهَ وَاصْبِرِیْ‘(صحیح البخاری، بَابُ قَوْلِ الرَّجُلِ لِلْمَرْأَةِ عِنْدَ القَبْرِ: اصْبِرِی ،رقم:۱۲۵۲، صحیح مسلم،رقم:۹۲۶)

’’ اللہ سے ڈر اور صبر اختیار کر۔‘‘

وجہ استدلال یہ ہے کہ آپﷺ کا اس عورت کو قبر پر بیٹھنے سے نہ روکنا جواز کی دلیل ہے۔(بخاری ومسلم)

۲۔        حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی جب میں قبرستان جاؤں تو کیا دعا پڑھوں، فرمایا پڑھ:

’ اَلسَّلَامُ عَلٰی اَهْلِ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَ یَرْحَمُ اللّٰه ُ الْمُسْتَقْدِمِیْنَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِیْنَ وَ اِنَّا اِنْ شَاءَ اللّٰهُ بِکُمْ لَلَاحِقُوْنَ‘(صحیح مسلم ،بَابُ مَا یُقَالُ عِنْدَ دُخُولِ الْقُبُورِ وَالدُّعَاء ِ لِأَهْلِهَا،رقم: ۹۷۴،سنن النسائی،الْأَمْرُ بِالِاسْتِغْفَارِ لِلْمُؤْمِنِینَ، رقم: ۲۰۳۷)

۳۔        عبداللہ بن ابی ملیکہ فرماتے ہیں ایک روز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  کی آمد قبرستان کی طرف ہوئی، میں نے دریافت کیا کہاں سے آئی ہو، کہا میں اپنے بھائی عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ  کی قبر سے آئی ہوں، کہا کیا رسول اللہﷺ نے قبروں کی زیارت سے منع نہیں فرمایا۔ کہا پہلے کیا تھا۔ بعد میں اجازت دے دی تھی۔

’’حاکم‘‘ نے روایت ہذا پر سکوت کیا ہے اور ذہبی نے اس کو صحیح کہا ہے۔ اور حافظ عراقی نے اس کی سند کو جید کہا ہے۔ (تخریج احیاء علوم الدین،ج:۴،ص:۵۲۱)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  کے خاوند رسولِ اکرمﷺ اور والد گرامی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ  ان کے گھر ہی میں مدفون ہیں جو ہر وقت کا مشاہدہ تھا ۔ آمدورفت کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ ہذا پر الاعتصام میں تفصیلی گفتگو پہلے بھی شائع ہو چکی ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الجنائز:صفحہ:205

محدث فتویٰ

تبصرے